اسلام آباد (مبارک علی) 9 ستمبر 2025 کو اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کی قیادت کو نشانہ بناتے ہوئے فضائی حملہ کیا، جس میں حماس کے اہم رہنما خلیل الحیہ، ظہیر جبران، عصام الدعالیس، عبداللطیف القانوع، راشد جحجوح، اور محمود ابو وتفہ سمیت دیگر ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب حماس کے سینئر رہنما غزہ جنگ بندی سے متعلق امریکی تجویز پر اجلاس کر رہے تھے۔ قطری وزارت خارجہ نے اسے "بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی” قرار دیتے ہوئے سخت مذمت کی، جبکہ اس واقعے نے قطر کی ثالثی کی ساکھ کو شدید دھچکا پہنچایا، جو اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے۔
یہ حملہ خلیجی ممالک کے لیے ایک پیچیدہ صورتحال کا باعث بنا۔ خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کا مشترکہ دفاعی معاہدہ، پیننسولا شیلڈ فورس، جس کے تحت "کسی ایک رکن پر حملہ سب پر حملہ ہے،” اس واقعے کے بعد امتحان سے گزر رہا ہے۔ قطر پر حملے نے سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک کی اسرائیل کے ساتھ متوازن پالیسی کو کمزور کیا، جو دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں۔ سعودی عرب، جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کر رہا تھا، اب اسرائیل کی جارحیت کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہے۔ یہ حملہ خطے میں کشیدگی کو بڑھانے اور علاقائی استحکام کو خطرے میں ڈالنے کا باعث بنا۔
امریکہ کا کردار بھی تنقید کی زد میں ہے۔ رپورٹس کے مطابق، امریکہ کو حملے کی پیشگی اطلاع تھی، جو قطر میں موجود اس کی العدید ایئر بیس کی وجہ سے سوالات اٹھاتی ہے۔ واشنگٹن کے "ایماندار ثالث” ہونے کے دعوے اب خلیجی ممالک کے لیے ناقابل یقین ہیں، کیونکہ اسرائیل کے اقدامات امریکی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ اس نے امریکی اثر و رسوخ پر سوالات اٹھائے اور خلیجی ممالک کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی پر مجبور کیا۔
سیاسی اختلافات، جیسے کہ قطر اور سعودی عرب کے درمیان سابقہ تناؤ، ممکنہ طور پر متحد ردعمل میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ تاہم، قطر کی خودمختاری پر حملے نے خطے میں نئے تزویراتی توازن کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ اگر جی سی سی متحد ردعمل دینے میں ناکام رہی، تو یہ اس کی ساکھ اور علاقائی اتحاد کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
یہ واقعہ خطے میں امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ قطر کی ثالثی کی ناکامی اور امریکی غیرجانبداری پر سوالات نے خلیجی ممالک کو اپنی سکیورٹی حکمت عملی پر غور کرنے پر مجبور کیا ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ سفارتی کوششوں کو تیز کرے تاکہ خطے میں مزید کشیدگی سے بچا جا سکے۔