پاکستان نے جدید دور میں تعلیم کے مستقبل سے متعلق عالمی مباحث میں ایک اہم پیش رفت کرتے ہوئے ایک جامع فِجیٹل (Phygital) لٹریسی فریم ورک متعارف کرا دیا ہے، جسے دنیا کا پہلاجامع ’ڈیکا-آرکک فِجیٹل لٹریسی ماڈل‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس ماڈل کا اعلان وزارتِ وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت میں ہونے والی ایک اعلیٰ سطحی نشست کے بعد کیا گیا۔
یہ نشست وزیرِ مملکت برائے وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت محترمہ وجیہہ قمر اور ممتاز بین الاقوامی اور کثیر الشعبہ جاتی محقق پروفیسر ڈاکٹر اورنگ زیب حافی کے درمیان منعقد ہوئی، جس میں ڈیکا-آرکک فِجیٹل لٹریسی ماڈل کے باضابطہ اجرا پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا گیا۔
ایشیا اینڈ اوشیانا پوسٹ ڈاکٹریٹ اکیڈمیا (AOPDA) کے ترجمان کے مطابق، یہ ماڈل ’ان ریئل لائف‘ (IRL) یعنی حقیقی دنیا کے تعلیمی نظام اور ’ان ورچوئل لائف‘ (IVL) یعنی ڈیجیٹل و ورچوئل تعلیمی نظام کے باہمی انضمام کے لیے ایک منظم اور تصوراتی فریم ورک فراہم کرتا ہے، جبکہ دونوں نظاموں کی عملی اور ادراکی حدود کو برقرار رکھا گیا ہے۔
اس ماڈل کے مرکز میں پروفیسر ڈاکٹر اورنگزیب حافی کی جانب سے متعارف کردہ ریئل لائف ڈیٹا (RLD) سسٹم اور سائبر اسپیس ڈیٹا (CSD) سسٹم کے درمیان واضح تفریق شامل ہے۔ ان دونوں نظاموں کے باہمی تعامل کو سمجھنے اور منظم کرنے کے لیے ایک نیا تجزیاتی تصور پیش کیا گیا ہے جسے ’فِجیٹل ڈیفرینشل کیلکولس‘ کا نام دیا گیا ہے، جس کا مقصد یہ جانچنا ہے کہ سیکھنے والے جسمانی اور ڈیجیٹل ماحول میں معلومات کو کس انداز سے پراسیسprocess کرتے اور سمجھتے ہیں۔
یہ فریم ورک تیز رفتار ڈیجیٹلائزیشن کے نتیجے میں ابھرنے والے دو بڑے چیلنجز سے نمٹنے کی کوشش کرتا ہے:
اوّل، حقیقی دنیا اور سائبر اسپیسCyberspace میں معلومات کے تجزیے اور فہم کے طریقۂ کار کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے کو کم کرنا؛
دوم، سیکھنے والوں کو اس قابل بنانا کہ وہ الگورتھمAlgorithm کے ذریعے تیار کردہ اور باہم مربوط ڈیجیٹل مواد کی ساکھ، محرکات اور مقصدیت کا تنقیدی جائزہ لے سکیں۔
ماڈل میں سائبر اسپیس پر غیر متوازن انحصار کے خطرات سے بھی خبردار کیا گیا ہے، اور واضح کیا گیا ہے کہ اگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے استعمال میں مناسب توازن برقرار نہ رکھا گیا تو یہ تعلیم کے بنیادی اصولوں اور فکری اساسات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس تناظر میں فِجیٹل لرننگ کے دو نمایاں خواندگی کے نمونے بیان کیے گئے ہیں:
ایک ادراکی و فکری نمونہ، جو گہرے فہم، استدلال اور شعوری ادراک سے تعلق رکھتا ہے؛
اور دوسرا ظاہری ادراکی نمونہ، جو معلومات کے سطحی مشاہدے اور محدود فہم کی عکاسی کرتا ہے۔
ڈیکا-آرکک فِجیٹل لٹریسی ماڈل کی ایک نمایاں خصوصیت تعلیم کے بنیادی تشخص، فکری توازن اور علمی مرکز یت کو محفوظ رکھنے پر اس کا خصوصی زور ہے۔
پروفیسر حافی کا پیش کردہ یہ ماڈل دس باہم مربوط ’آرکس‘ (Archs) پر مشتمل ہے، جن میں وجودی، تعریفی، حالات پر مبنی، تجرباتی، سیاقی، تسلسلی، طولانی، عرضانی اور کراس سیکشنل جہتیں شامل ہیں۔ یہ تمام جہتیں مل کر تعلیمی ڈیزائن، تدریسی حکمتِ عملی اور پالیسی سازی کے لیے ایک کثیرالجہتی اور مربوط نقطۂ نظر فراہم کرتی ہیں۔
فِجیٹل لٹریسی، جو حقیقی طریقہ وقوف وفہم وتدبر اور ڈیجیٹل طریقہ فہم کے امتزاج پر مبنی ایک ابھرتا ہوا تصور ہے، اس سے قبل بھی عالمی سطح پر زیرِ بحث رہا ہے۔ میڈرڈ کی کمپلوتینسے یونیورسٹی سے وابستہ محققین سانتیاگو باتیستا-ٹولیڈو اور ڈیانا گاویلان سمیت گنتی کے چند اسکالرز نے اس حوالے سے ابتدائی نظریاتی فریم ورک پیش کیے۔ کولمبیا یونیورسٹی، اسٹینفورڈ یونیورسٹی اور بوکونی یونیورسٹی ان چند عالمی اداروں میں شامل ہیں جو اس میدان میں تحقیق کر رہے ہیں، جہاں بوکونی Bocconi University کواکثر ایک پیش رو مرکز کے طور پر حوالہ دیا جاتا ہے۔
اس تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی تعلیمی منظرنامے میں AOPDA کا مؤقف ہے کہ پاکستان کا ڈیکا-آرکک فِجیٹل لٹریسی ماڈل ایک نمایاں اور بامعنی پیش رفت کی حیثیت رکھتا ہے، جو پاکستان کو اکیسویں صدی کی تعلیمی تحقیقی اور سائنسی تبدیلی اور فکری قیادت میں ایک فعال کردار ادا کرنے والا ملک ثابت کرتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر اورنگزیب حافی کو بین الاقوامی سطح پر ایک ہمہ جہت (Polymath) محقق اور سائنسدان کے طور پر جانا جاتا ہے، جن کی تحقیقی دلچسپیاں سائنسی تحقیقات، اصولِ تحقیق، آفاقیت،مختلف نظریات تعلیم، ڈیجیٹل علمیات، اور بین الشعبہ جاتی سائنسی و نظامی فکر تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کا کام بالخصوص ٹیکنالوجی کی ترقی کو انسانی ادراک، اخلاقیات اور تعلیم کے بنیادی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے پر مرکوز رہا ہے، خاص طور پر پوسٹ-ڈیجیٹل معاشروں کے تناظر میں۔
باضابطہ اجرا کے بعد ڈیکا-آرکک فِجیٹل لٹریسی ماڈل کو قومی اور بین الاقوامی علمی فورمز پر پیش کیا جا رہاہے، جن میں نیشنل پوسٹ ڈاکٹریٹ اکیڈمیا (NPA)، ایشیا اینڈ اوشیانا پوسٹ ڈاکٹریٹ اکیڈمیا (AOPDA)، ساؤتھ ایشین انٹرڈسپلنری ریسرچ انیشی ایٹو (SAIRI) اور یونیسکو سمیت دیگر معتبر ادارے شامل ہیں۔
ایک تہنیتی پیغام میں AOPDA کے سینئر پرووسٹ اور سری لنکا کے تین صدور کے سابق مشیر نیز 2004–05 کے سونامی کے دوران اقوامِ متحدہ کے مشیر رہنے والے ڈاکٹر ایکانایاکے مدیانسیلاگے نوارَتنے نے اس ماڈل کو “ایک انقلابی علمی کاوش” اور “ابھرتے ہوئے تعلیمی امتزاج کے لیے ایک تاریخی پیش رفت” قرار دیا۔
انہوں نے اپنے پیغام میں کہا:
“اکیسویں صدی کے انقلابی تعلیمی نقطۂ نظر کے اس اعلیٰ ترین سنگِ میل کو پیش کرنے پر آپ کو دُور تک نظر آنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں "۔


