گلگت بلتستان میں مکمل شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کے باعث نظام زندگی ٹھپ ہو کر رہ گیا.
گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں لوگ بڑے احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکال رہے ہیں جس کی وجہ سے تمام علاقوں میں ٹریفک معطل ہے۔ اسکے علاوہ جمعہ کو گلگت، سکردو، دیامر، غذر، استور، شغر، گھانچے، کھرمنگ، ہنزہ اور نگر کے مختلف علاقوں میں دکانیں، بازار، ریسٹورنٹ اور تجارتی مراکز بند رہے۔
یاد رہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی (اے اے سی) نے تاجروں، ٹرانسپورٹرز اور ہوٹل مالکان کی مشاورت سے ہڑتال کی کال دی اور یہ احتجاج گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے کے خلاف گزشتہ ماہ سے جاری ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اینڈ اکنامک الٹرنیٹوز (آئی ڈی ای اے ایس) پاکستان کی ریسرچر مریم ایس خان نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی او کے کے سب سے بڑے ٹیلی کام آپریٹر سپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن نے گلگت بلتستان میں انٹرنیٹ سروسز کو بلاک کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر سینیٹر فرحت اللہ بابر کی ایک ویڈیو شیئر کی گئی جس میں انکا کہنا تھا کہا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا واحد خطہ ہے جہاں لوگ اپنی زمینوں کے مالک نہیں ہیں، پاکستان جی بی میں 18ویں ترمیم کو نافذ نہیں کرتا کیونکہ اس کے بعد لوگ اپنی زمینوں کے مالک بن جائیں گے، یہ وہ علاقہ ہے جس سے انکار کیا جا رہا ہے”
ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کے باعث نجی و سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں میں حاضری کم ، جس کی وجہ سے لوگوں کو اشیائے ضروریہ کی خریداری اور سفر میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔مظاہرین نے حکومت کو خبردار کیا کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو شاہراہ قراقرم بلاک کر دی جائے گی۔
خیال رہے کہ،استور، کھرمنگ، اسکردو، شگر، گھانچے، ہنزہ، نگر اور غذر میں بھی نماز جمعہ کے بعد احتجاجی ریلیاں اور مظاہرے کیے گئے۔ تاہم، مرکزی مظاہرے گلگت کے غریب باغ اور اسکردو میں یادگار شہداء میں کیے گئے جہاں ہزاروں لوگ طویل دھرنے کے لیے جمع ہوئے۔