سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ کراچی بارش میں نہیں، بلکہ انسانی غلطیوں کے سمندر میں ڈوب گیا۔ یقیناً انہوں نے کراچی کی صورتحال کی مختصر لیکن جامع ترجمانی کی۔ ایک دن کی شدید بارش نے کراچی کو سمندر میں تبدیل کر دیا اور سندھ حکومت کی ناکامیوں کو بے نقاب کر دیا۔ محکمہ موسمیات نے دو روز قبل ہی 245 ملی میٹر بارش کی پیش گوئی کی تھی، لیکن سندھ حکومت نے نہ تو ایمرجنسی نافذ کی اور نہ ہی عام تعطیل کا اعلان کیا۔ نتیجتاً، پورا شہر پانی میں ڈوب گیا۔ کراچی کی اہم شاہراہوں، جیسے آئی آئی چندریگر روڈ، شاہراہ فیصل، اور دیگر مرکزی گزرگاہوں پر حکومتی بے حسی اور بدانتظامی کا منظر عام تھا۔ یہ شاہراہیں دریا کا منظر پیش کرنے لگیں۔
دوسری جانب، میئر کراچی مرتضیٰ وہاب سیاسی چاپلوسی اور جھوٹ بولنے میں اس قدر مگن ہیں کہ میڈیا پر صرف سب اچھا ہے کی رٹ لگاتے ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ میں نے خود آئی آئی چندریگر روڈ سے شاہراہ فیصل اور ملیر تک پیدل دس گھنٹوں کی طویل سفر کیا، لیکن کہیں بھی سرکاری مشینری یا امدادی سرگرمیاں نظر نہ آئیں۔ سندھ سیکریٹریٹ سے ایف بی آر آفس، حبیب بینک پلازہ، اور پریس کلب تک ہر طرف پانی ہی پانی تھا، جیسے میئر نے حب کینال کا رخ کراچی کی طرف موڑ دیا ہو۔
دیکھا جائے تو بارش دنیا بھر میں ہوتی ہے، لیکن ذمہ دار ممالک میں حکومتیں اپنی ذمہ داریوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے وسائل بروئے کار لاتی ہیں۔ کراچی میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ یہ شہر پہلے ہی بجلی، پانی، اور گیس جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہے، اور بارش نے شہریوں کی زندگی کو قیامت صغریٰ بنا دیا۔ شاہراہ فیصل پر بدترین ٹریفک جام کے باعث ہزاروں افراد، جن میں خواتین، بچے، اور بزرگ شامل تھے، پانی میں ڈوب کر پیدل چلنے پر مجبور ہوئے۔ ایمبولینسوں میں مریض اور حتیٰ کہ میتیں بھی پھنس گئیں، لیکن حکومتی مشینری حرکت میں نہ آئی۔
دوسری طرف، گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے حسبِ عادت اس بحران کو سیاسی فائدے کیلئے استعمال کیا۔ گورنر ہاؤس کھولنے اور کھانے کی تقسیم کے اعلانات کر کے انہوں نے واضح کیا کہ عوامی مسائل سے زیادہ سیاسی مفادات ان کی ترجیح ہیں۔ شہری سڑکوں پر سمندر نما پانی میں جان بچانے کی فکر میں ڈوبے رہے، جبکہ حکمران محض بیانات کی بوچھاڑ کرتے رہے۔
بدقسمتی سے سندھ میں ہمیشہ سے ایک المیہ رہا ہے۔ حکومتی وزرا کراچی میں خراب کارکردگی پر سوال اٹھنے پر ایک ہی عذر پیش کرتے ہیں کہ شہر پر پورے ملک کا بوجھ ہے اور لوگ یہاں آ کر آباد ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کا فرض ہر حال میں شہریوں کو سہولیات فراہم کرنا نہیں؟ ملک کا آئین اس حوالے سے کیا کہتا ہے ؟۔دنیا کے بڑے شہروں میں لاکھوں افراد روزگار کیلئے آتے ہیں، لیکن وہاں کی حکومتیں کبھی آبادی کا بہانہ نہیں بناتیں۔ کراچی میں اصل مسئلہ نااہلی، بدعنوانی، اور ذمہ داری سے فرار ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزارتیں عوامی خدمت کے لیے نہیں، بلکہ خواص کی خوشنودی اور سیاسی وفاداری کیلئے دی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی مینڈیٹ کو نظر انداز کر کے ایسے افراد کو میئر بنایا جاتا ہے جو قصیدہ گوئی کے سوا کچھ نہیں جانتے۔ جس کی ایک مثال مرتضیٰ وہاب کو کراچی سونپ دینا ہے نتیجتاً، کراچی کے نالے، سڑکیں، اور انفراسٹرکچر تباہی کے دہانے پر ہیں۔ یاد رہے کراچی پاکستان کا معاشی دل ہے، لیکن اس کا خستہ حال انفراسٹرکچر آج رحم کی بھیک مانگ رہا ہے۔ عدم دستیابی نے شہریوں کی زندگی کو پہلے ہی اجیرن بنا رکھا تھا، اور اب بارش نے اسے مزید بدتر کر دیا۔ ایک دن کی بارش نے نہ صرف شہر کو ڈبویا، بلکہ مریضوں کا علاج، کچے گھروں میں رہنے والوں کی نیندیں، اور مزدوروں کی روزی روٹی بھی ڈبو دی۔ سب سے شرمناک بات یہ ہے کہ حکمرانوں کی غیرت بھی اس پانی میں ڈوب گئی، لیکن انہیں اپنی ناکامی کا احساس تک نہ ہوا۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت کراچی کے مسائل پر براہ راست توجہ دیں اور اس شہر کی بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے کیلئے ٹھوس اقدامات کرے۔ شہر کے نکاسی آب کے نظام، سڑکوں، اور عوامی سہولیات کو ترجیحی بنیادوں پر بہتر بنانے کیلئے خصوصی گرانٹ کا اعلان کریں۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ شہر، جو پاکستان کی معیشت کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، خود تباہی کے دہانے پر جا کھڑا ہوگا۔ کراچی کے شہری بنیادی سہولیات کے مستحق ہیں، اور اب وقت آ گیا ہے کہ حکمران بیانات کی بجائے عملی اقدامات کریں۔
وما علینا الاالبلاغ
شیر علی انجم