گلگت میں شاہراہ بابوسر پر مون سون کی شدید بارشوں سے سیلابی ریلوں کے دوران لاپتہ ہونے والی خیبر ٹیلی ویژن کی اینکر شبانہ لیاقت المعروف سپنا خان ، ان کے شوہر لیاقت علی اور تین بچوں کی گاڑی سیلابی ملبے سے برآمد ہو گئی ۔
اسلام آباد: گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے کے ٹو ٹیلی ویژن سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رواں برس صوبے میں تاریخ کا خطرناک ترین سیلاب آیا اور لینڈ سلائیڈنگ ہوئی ۔
انہوں نے کہا کہ سیلابوں اور لینڈ سلائیڈنگ سے گلگت بلتستان میں 20 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے ، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے متعدد افراد جاں بحق ہوئے ہیں اور کئی افراد اب بھی لاپتہ ہیں ۔
فیض اللہ فراق نے بتایا کہ لاپتہ ہونے والوں میں خیبر ٹی وی کی معروف اینکر پرسن شبانہ لیاقت المعروف سپنا خان ، ان کے شہر لیاقت اور ان کے 3 بچے بھی شامل ہیں ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سپنا خان اور ان کے خاندان کے تمام افراد کی تلاش کیلئے خصوصی ریسکیو آپریشن جاری ہے جس میں متعدد متعلقہ اہلکار حصہ لے رہے ہیں ۔
لگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے بتایا کہ چلاس میں سیاحوں کے لیے مفت رہائش کا انتظام کیا گیا ہے، اور نقصانات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے ۔
عینی شاہدین کے مطابق 10 سے 15 سیاح سیلاب کی زد میں آئے ، اب تک 7 لاشیں نکالی جا چکی ہیں، جن میں فہد اسلام، مشعل فاطمہ، عبد الہادی (لودھراں)، رش خان (تھک شارات)، اویز، شہزاد (تھور)، اور ایک نامعلوم شخص شامل ہیں، لاپتہ افراد میں شبانہ لیاقت، لیاقت علی (پی اے ایف ملازم)، ان کے بچوں کے علاوہ ملک آفاق اور انصر محمود (منڈی فیصل آباد) شامل ہیں ۔
شبانہ لیاقت، المعروف سپنا خان، خیبر ٹی وی کی ایک ممتاز اینکر پرسن تھیں، جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مارننگ اور ایوننگ شوز کے علاوہ متعدد پروگراموں کی میزبانی کی ۔ ان کی پرکشش شخصیت، بے باک انداز، اور پروفیشنلزم نے انہیں ناظرین میں مقبول بنایا ۔
سپنا خان نے خیبر ٹی وی پر سماجی مسائل، ثقافت، اور تفریح سے متعلق پروگراموں میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا، جس سے وہ ایک گھریلو نام بن گئیں ۔ ان کے پروگرام نہ صرف معلوماتی ہوتے تھے بلکہ عوام کے مسائل کو اجاگر کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے تھے ۔
ریسکیو آپریشن میں دیامر پولیس، ضلعی انتظامیہ، ڈیزاسٹر مینجمنٹ، ریسکیو 1122، پاک فوج، اور جی بی سکاؤٹس شریک ہیں، سراغ رساں کتوں اور ڈرونز کی مدد سے سرچ آپریشن جاری ہے، جو لاپتہ افراد کے ملنے تک جاری رہے گا ۔