(اسلام آباد, تحسین اللہ تاثیر): سیکٹر ایچ نائن کے پشاور موڑ میں واقع ہفتہ وار بازار میں آج بدھ کو 11 بج کر 7 منٹ پر آگ لگ گئی، جس کی وجہ سے 700 سے زائد سٹالز جھل گئے۔ ابتدائی طور پر آگ کپڑوں کے سکیشن میں لگی، جس کے بعد کراکری اور جوتوں کے سیکشن تک پھیل گئی۔ واقعے میں کروڑوں روپے مالیت کا سامان جھل کر خاکستر ہوگیا۔
تاحال آگ لگنے کے وجوہات معلوم نہیں ہوسکی لیکن کے ٹو ٹائمز سے بات کرتے ہوئے متاثرہ دکانداروں کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں لگ رہا کہ واقعہ بجلی کی شارٹ سرکٹ کی وجہ سے پیش آیا ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ چوتھا واقعہ ہے جو ہر دفعہ بدھ کے دن پیش آتا ہے اور اس دن بازار بند ہوتا ہے۔ عام طور پر اتوار، منگل اور جمعے کو یہاں پر دکانیں کھلی ہوتے ہیں۔
ایک بندے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرکے ٹو ٹائمز کو بتایا کہ کچھ حکومتی لوگ اس واقعے میں ملوث ہے، وہ کچھ اس طرح کے کیمیکلز کا استعمال کرتے ہیں جس سے آگ بہت کم وقت میں پھیل جاتی ہے اور یہ اُس دن ہوتا ہے جس دن بازار بند ہوتا ہے۔
متاثرین کا کہنا تھا کہ یہاں پر زیادہ ترغریب لوگوں کا کاروبار ہے اور ان کے سٹالوں میں موجود مال ادھار کا ہوتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق جس وقت آگ لگی تو اس وقت ایک فائیر بریگیڈ گاڑی بھی موجود تھی لیکن اس میں پانی نہیں تھا،بازار کی سیکیورٹی کیلئے 3 سے 4 چوکیدار بھی موجود ہوتے ہیں لیکن پھر بھی آگ پر وقت پہ قابو نہیں پایا گیا۔
جس وقت فائیربریگیڈ پہنچ گئے تو آگ نے کافی دکانوں کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا اور ابتدائی طور فائر بریگیڈ کی گاڑیاں آگ بجھانے میں ناکام ہوگئیں، جس کے بعد راولپنڈی ریسکیو 1122 سے بھی مدد لی گئی، پاک نیوی، ائیر فورس اور راولپنڈی انتظامیہ سے بھی معاونت لی گئی۔ اس موقع پر سٹال ہولڈرز بھی اپنی مدد آپ کے تحت آگ بجھانے میں مصروف رہے۔
آئی جی اسلام آباد اور چیف کمشنر اسلام آباد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موقع پر موجود فائیر بریگیڈ نے فوری کام کا آغاز کر دیا تھا، بارش کی وجہ سے ہماری ٹیم پہلے سے ہی فیلڈ میں موجود تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ 31 فائیر بریگیڈ گاڑیوں نے کارروائی میں حصہ لیا، آتشزدگی سے جس جس کا نقصان ہوا اس کا ازالہ کیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ واقعے کی وجوہات کا پتہ کرنے کے لیے ڈی سی اور پولیس حکام کی مشترکہ کمیٹی بنائیں گے، سات دن کے اندر کمیٹی آگ لگنے کی وجوہات کی رپورٹ پیش کرے گی۔
واضح رہے کہ اس بازار میں 3 دفعہ پہلے بھی آگ لگ لگی تھی جس میں کروڑوں روپے کا نقصان ہوا تھا۔ لیکن اس کی نہ انکوائری ہوئی، نہ وجوہات معلوم ہوسکے اور نہ کسی کا نقصان کا ازالہ دیا گیا۔