پشاور – 13 جون 2025: خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا بجٹ شدید تنقید کی زد میں آگیا ہے، کیونکہ اس میں ہزارہ ڈویژن (ایبٹ آباد، ہری پور، مانسہرہ، بٹگرام، کولائی پالس) اور اپر و لوئر چترال کے لیے کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ شامل نہیں کیا گیا۔
بجٹ میں صحت، تعلیم، مواصلات اور پولیس کے شعبوں کو ترجیح دی گئی، لیکن ان اہم اور جغرافیائی لحاظ سے حساس علاقوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔ نہ کوئی بڑی یونیورسٹی، نہ اسپتال، نہ ایکسپریس وے، نہ ڈیم، نہ صنعتی زون اور نہ ہی کوئی انفراسٹرکچر منصوبہ پیش کیا گیا۔
جبکہ دوسری جانب، جنوبی اضلاع اور ضم شدہ قبائلی علاقوں کے لیے اربوں روپے کے منصوبے رکھے گئے ہیں، جن میں سڑکیں، اسپتال، واٹر سپلائی، لائیوسٹاک اسکیمز اور سیف سٹی پروجیکٹس شامل ہیں۔
ہزارہ اور چترال کے مقامی رہنماؤں اور سول سوسائٹی نے اس بجٹ کو "سیاسی بنیاد پر تقسیم شدہ اور غیر منصفانہ” قرار دیا ہے۔ ایک سابق عوامی نمائندے نے کہا:
"یہ کیسی ترقی ہے جس میں پورے کے پورے علاقے کو نظر انداز کر دیا جائے؟ چترال جیسے علاقے جو پہلے ہی پسماندہ ہیں، انہیں مکمل طور پر فراموش کر دینا سراسر ناانصافی ہے۔”
ماہرین کے مطابق، چترال جیسے سیاحتی اور ماحولیاتی لحاظ سے نازک علاقے کو بجٹ میں مکمل نظر انداز کرنا خطرناک رجحان ہے۔ جبکہ ہزارہ، جو کہ تعلیم، سیاحت اور محنت کشوں کے حوالے سے صوبے میں نمایاں ہے، اسے بھی کوئی خاص حیثیت نہیں دی گئی۔
علاقائی رہنما مطالبہ کر رہے ہیں کہ خیبرپختونخوا اسمبلی اس بجٹ کو نظرثانی کرے اور ترقیاتی فنڈز کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے، ورنہ یہ علاقائی محرومی کو مزید گہرا کر دے گا اور عوامی ناراضگی کو جنم دے گا۔