پاکستان میں معدوم ہوتی بڑی بلی کے خاندان سے تعلق رکھنے والا گلدار یا تیندوا سندھ بھر میں نایاب ترین جانوروں میں شمار ہوتا ہے۔ اگر سندھ بھر میں گلدار کی مجموعی آبادی کا تخمینہ لگایا جائے تو شاید دس سے بھی کم گلدار کے جوڑے سکھر تا کراچی کے درمیان سندھ کے طول و عرض میں پھیلے ہونگے۔
گلدار کی معدومیت کی بڑی وجہ گلدار کے مرغوب شکار، چنکارہ ہرن، خرگوش، جنگلی سور کی کمی اور گلدار کے مسکن کی تباہی میں اونچے درختوں کا صفایا ہونا اور شکاریوں کے شکار کا باعث ہیں۔میرا محتاط اندازہ ہے رواں دہائی سندھ میں گلدار کی موجودگی کی آخری دہائی ہے۔ میں کراچی کے عوام کو بتاتا چلو کہ کئی عشروں قبل گلدار جیسا سحر انگیز چھلاوا نما جانور کراچی میں مبارک ویلیج، ہاکس بے، مواچھ گوٹھ میدان، اورنگی، منگھو پیر، گڈاپ، حب ڈیم، کھار سینٹر، ملیر، کاٹھوڑ، مہر جبل، اور کراچی سے منسلک ضلع جامشورو کے علاقوں میں پایا جاتا تھا۔ مجھے اسکی موجودگی کا احساس سنء دوہزار بیس سے تھا مگر وقت و وسائل کی کمی کے باعث گلدار کے نشان تک پہنچنا دشوار گزار تھا مگر جہاں تک لیول پلینگ فیلڈ یا موقع میسر آیا اپنی کوشش جاری رکھیں۔
گلدار کے بارے میں سب سے قابل قدر معلومات کیرتھر نیشنل پارک کی لوکل وسزڈم (یا حرف عام میں سیانا شخص) محمد رمضان برفت کے طفیل حاصل ہوئی اکثر کھنڈو گوٹھ کے چوک پر رات گئے تک چلنے والی کچھیری میں گلدار بارہا زیر موضع آیا اور محمد رمضان برفت کا ہر بار کہنا تھا گلدار ہم سے روٹھا ضرور ہے مگر ہمیں موقع ضرور دے گا موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گلدار ایک بار پھر بڑی شان سے کیرتھر نیشنل پارک کی زمین پر چہل قدمی کرے گا۔ گھاس کے میدان میں چنکارہ ہرن کو اپنا نوالہ بنائے گا۔ گزشتہ ہفتہ بھی میں، موبی منیمل، ظفیر شیخ, اور قلندر برفت نے کیرتھر نیشنل پارک کھار سینٹر کے عقب میں خودکار کیمرہ لگائے اور ہر ممکن کوشش کی کہ مٹی میں ملنے والے ہر پاؤں کے نشان کی درست حد تک پہچان کی جائے اور ایسی گزرگاہ کا انتخاب کیا جہاں سے کسی بھی گلدار، بھیڑیا، لگڑبھگے سمیت دیگر جانوروں کی موجودگی کا پتہ لگایا جاسکے جس میں ہم کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے مگر کوئی قدرت کا متعین کردہ بڑا شکاری جانور ہمارے کیمرہ میں نا آسکا گوکہ گلدار کا علاقہ 48 کلومیٹر کے وسیع دائرے میں واقع ہوتا ہے اور گلدار کو کیرتھر میں ڈھونڈنا بھوسے میں سوئی ڈھونڈنا کے مترادف ہے۔
گزشتہ رات ضلع جامشورو کے مقام کیر تھر نیشنل پارک کے کارچاٹ سینٹر کے پاس ایک گاؤں میں گلدار دبے پاؤں بکریوں کے باڑے میں داخل ہوا جہاں گاؤں کے شخص نے گلدار کے بارے میں سنی سنائی صرف ڈر و خوف پیدا کرنے والی کہانیوں اور جنگلی حیات کے متعلق معلومات و تعلیم کی کمی کے باعث اپنی بندوق سے گولی داغ کر سندھ کے نایاب ترین جانور گلدار کو مار ڈالا یہاں غلطی ہماری بھی ہے کہ ہم بروقت اقدام نا اٹھا سکے اور گلدار کے مسکن میں صدیوں سے مقیم افراد کو گلدار کی اہمیت سے آگاہ نا کرسکے۔ اگر اب بھی کچھ نا کیا تو یاد رکھیے کیرتھر کے وجود سے ہی سندھ میں زندگی کا وجود ہے اور کیر تھر میں زندگی جنگلی حیات کی بقاء سے ہی جنم لیتی ہے۔