قلع نندنہ ضلع جہلم میں کوہِ نمک کے مشرقی کنارے پر ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایستادہ ہے اور اپنے گم گشتہ ماضی کی یاد دلا رہا ہے۔ کئی صدی پرانا نندنہ کا قلعہ ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے جس کی بنیاد نویں صدی میں ہندوشاہی خاندان نے رکھی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس قلعے کا نام ایک ہندو بھگوان کے افسانوی باغ ’’نندنہ‘‘ کے نام پر رکھا گیا تھا۔
درحقیقت یہ قلعہ پہاڑوں کے درمیان آس پاس کی نگرانی اور شمال و مغرب سے حملہ آوروں کی روک تھام کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سکندر یونانی کی فوج کے گھوڑوں نے پتھر چاٹ کر کھیوڑہ کی نمک کی کانوں کی اصلیت دریافت کی تھی۔
نندنہ میں ایک قلعے کے کھنڈرات ہیں جن میں ایک مندر اور ایک مسجد ملتی ہے۔ مندر کو شیو مندر کے نام سے جانا جاتا ہے جو کوہِ نمک کے دیگر مندروں (جیسے کٹاس راج اور ملوٹ) سے مماثلت رکھتا ہے۔ شیو مندر کو ہندو شاہی راج کے بادشاہ ’’جے پال‘‘ کے بیٹے آنند پال نے قرون وسطی کے ابتدائی دور میں تعمیر کیا تھا۔
مغل دور میں بھی نندنہ ایک اہم تفریح گاہ تھی۔ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر اور جہانگیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کے یہ ان کی پسندیدہ شکارگاہ تھی جہاں وہ پرندوں اور ہرن کے شکار کے لیے آیا کرتے تھے۔
تاریخ کے مطابق 1008ء میں محمود غزنوی نے بالناتھ کے پہاڑوں میں نندنہ پرکی اور قلعے کو فتح کر لیا اور پھر جے پال کے بیٹے آنند پال کے تعاقب میں کشمیر چلا گیا۔ تاریخ اور سال کے فرق سے طبقاتِ اکبری میں بھی یہی کہانی ملتی ہے۔
شیو مندر کے پاس ہی البیرونی پوائنٹ یا البیرونی کی رصد گاہ واقع ہے۔ 5 ستمبر 973ء کو موجودہ ازبکستان کے علاقے خوارزم میں پیدا ہونے والے البیرونی کا پورا نام ’’ابوریحان محمد بن احمد‘‘ المعروف البیرونی تھا جو اپنے دور کے بہت بڑے محقق اور سائنس داں تھے۔ ہندوستان میں رہ کر البیرونی نے نندنہ قلعہ میں اپنی ایک رصد گاہ قائم کی اور زمین کے رداس کو قدرے درستی کے ساتھ ناپا۔ انہوں نے نندنہ کو علم حاصل کرنے کے لیے ایک بہترین مقام قرار دیا۔