گلگت بلتستان کی تاریخ میں کئی منصوبے ایسے رہے ہیں جو برسوں کے خواب کے طور پر عوام کی زبان پر رہتے ہیں اور جب ان پر عملی کام کا آغاز ہوتا ہے تو نہ صرف عوامی خوشی دیدنی ہوتی ہے بلکہ امیدوں کے چراغ بھی روشن ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک منصوبہ ہے بوبند شغرتھنگ پراجیکٹ، جس پر باقاعدہ طور پر سکردو سائیڈ سے کام شروع کر دیا گیا ہے۔
یہ منصوبہ سابق وزیر اعلیٰ خالد خورشید کی جانب سے دیا گیا ایک اہم تحفہ ہے شکریہ سابق وزیر اعلیٰ صاحب۔خالد خورشید کے مختصر عرصے میں بڑے بڑے پراجیکٹس رکھے گئے تھے جن میں کچھ پر کام مکمل ہوا تھا کچھ منصوبوں پر اب بھی کام جاری ہے کچھ منصوبوں کو سیاسی بنیادوں پر روک دیا گیا ہے ان میں ایک بڑا منصوبہ استور بوبند شغرتھنگ روڈ بھی تھا اس پراجیکٹ پر کام شروع ہونے سے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے ۔پراجیکٹ ڈائریکٹر کے مطابق جلد ہی استور سائیڈ سے بھی اس پر کام کا آغاز کر دیا جائے گا، جبکہ منصوبہ تین سال کے عرصے میں مکمل ہو گا۔
بوبند شغرتھنگ منصوبہ بلاشبہ نہایت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس کی تکمیل کے بعد استور اور سکردو کے درمیان زمینی سفر میں خاطر خواہ کمی واقع ہو گی۔ یہ نہ صرف عوامی رابطوں کو بہتر بنائے گا بلکہ سیاحت کے فروغ میں بھی سنگ میل ثابت ہو گا۔گلگت بلتستان سیاحت کے اعتبار سے دنیا بھر میں اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے۔ اگر یہاں سفری سہولتوں کو بہتر بنایا جائے تو ہزاروں سیاح ہر سال اس خطے کا رخ کر سکتے ہیں۔ بوبند شغرتھنگ منصوبہ اس خواب کی تعبیر کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔
اس منصوبے کے نتیجے میں مقامی لوگوں کو روزگار کے نئے مواقع میسر آئیں گے۔ تعمیراتی کام کے دوران بھی سینکڑوں خاندانوں کو فائدہ ہو گا اور منصوبے کی تکمیل کے بعد سیاحتی سرگرمیوں کے بڑھنے سے ہوٹل انڈسٹری، ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبے بھی ترقی کریں گے۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بوبند شغرتھنگ منصوبہ گلگت بلتستان کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے اس منصوبے کو بروقت اور شفاف انداز میں مکمل کریں تاکہ عوام کے خواب حقیقت میں ڈھل سکیں۔