ہزارہ ڈویژن کے اضلاع کوہستان اور تورغر پاکستان کے باقی علاقوں کی نسبت زیادہ قدامت پسند ہیں۔ یہاں خواتین میں ںاخواندگی کی شرح ستانوے فیصد تک ہے۔ ضلع کوہستان سے ایسے بیشمار واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں جن کا تعلق خواتین پر تشدد، کم عمری کی شادیاں اور غیرت کی بنیاد پر خواتین کا قتل شامل ہیں۔
گزشتہ ہفتے کوہستان کے علما نے جن میں زیادہ تر جمعیت علمائے اسلام-ف کے ارکان ہیں، نے خواتین انتخابی امیدواروں اور ان کے لیے انتخابی مہم چلانے کے خلاف فتویٰ جاری کیا اور اِس عمل کو غیر اسلامی قرار دیا۔ علاوہ ازیں فتوے میں گھر گھر جا کر عورت کا ووٹ مانگنا قابلِ مذمت قرار دیا گیا۔ حیران کن طور پر کوہستان کے تقریباً 400 علما نے اس فتوے کی تائید کی ہے۔
کوہستان میں جہاں خواتین کا ووٹ ڈالنا ہی انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے وہاں پر خواتین انتخابات میں حصہ لینے کی جرات بھلا کیسے کر سکتی ہیں۔ اس بار یہ جرات چند خواتین نے کر دکھائی ہے اور دھمکیوں سے بےپرواہ ہو 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پرعزم ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں یہ دلیر اور بہادر خواتین کون ہیں:۔
ہزارہ ڈویژن کے کوہستان اور تورغر کے اضلاع میں محترمہ مومنہ باسط، محترمہ تہمینہ فہیم، شکیلہ ربانی، اور ثنایا سبیل انتخاب لڑنے والی پہلی خواتین ہیں۔ یاد رہے کہ یہ چاروں خواتین آزاد حیثیت میں انتخابات لڑ رہی ہیں البتہ مومنہ باسط، تہمینہ فہیم اور شکیلہ ربانی کو تحریک انصاف کی حمائت حاصل ہے۔
تہمینہ فہیم
تہمینہ فہیم کوہستان اپر پی کے-31 سے انتخاب لڑ رہی ہیں۔ تہمینہ کے مطابق کوہستان کی خواتین کو اپنے حقوق سے بالکل آگاہی نہیں ہے۔ انہیں اپنی انتخابی مہم میں مشکلات درپیش ہیں کیونکہ وہ براہِ راست عام لوگوں، حتیٰ کہ خواتین ووٹرز کے ساتھ مل نہیں سکتیں۔
شکیلہ ربانی
شکیلہ ربانی تورغر پی کے-41 میں قسمت آزمائی کر رہی ہیں۔ انہیں بھی انتخابی مہم بہت مشکل لگ رہی ہے کیونکہ زیادہ تر لوگ ان سے ملنا نہیں چاہتے۔ شکیلہ کہتی ہیں کہ جرگہ ہی تورغر میں سب سے زیادہ مضبوط ہے۔ ان کی یہ بات ریاستی اداروں کے لیے بہرحال ایک سوالیہ نشان ہے۔
ثنایا سبیل
ثنایا سبیل کولائی پالس پی کے-33 میں انتخاب لڑ رہی ہیں۔
مومنہ باسط
مومنہ باسط بھی کولائی پالس پی کے-33 میں سے انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں۔ مومنہ باسط ہزارہ ڈویژن میں تحریک انصاف کی سرگرم رکن ہیں۔