کے ٹو ٹی وی کے شو "عکس گلگت بلتستان” میں پاکستان تحریک انصاف ضلع استور کے صدر "محمد شفا” کو مدعو کیا گیا تھا۔ محمد شفا ایک سیاسی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ ضلع استور کے سماجی کارکن بھی ہیں۔ پروگرام کے دوران انہوں نے ضلع استور کے پوشیدہ گوشوں اور استور ویلی روڈ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
ضلع استور پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کا ایک ضلع ہے۔ گلگت بلتستان کے سب سے مشہور کھیل پولو فیسٹیول ضلع استور کے گاؤں راما میں منعقد ہوتا ہے۔ یہ گلگت سے کشمیر جانے والے راستے پر واقع ایک اہم شہر ہے جسے اس کی خوب صورتی، قدرتی مناظر اور آب و ہوا کی وجہ سے ’’کشمیر خورد‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی استور کا ایک گاؤں پولو فیسٹیول کے لیے بھی مشہور ہے۔
استور کی علاقائی زبان شینا ہے اور خواندہ افراد قومی زبان اردو بھی جانتے ہیں۔ مشہور سیاحتی علاقوں میں چیلم، بوبین، عیدگاہ، چونگراہ پریشنگ رامکھا اور تری شنگ قابل ذکر ہے۔ مؤرخین اور جغرافیہ کے ماہرین بتاتے ہیں کہ اسے متعدد ناموں سے پکارا گیا اور یہاں صدیوں کے دوران بسنے والی اقوام کی زبان اور روایات کے مطابق نام بدلتا رہا، لیکن قرین قیاس یہی معلوم ہوتا ہے کہ استور اپنے قدیم نام اسور سے ہی نکلا ہے۔ عہدِ قدیم میں یہ علاقہ راجہ گمون کے ماتحت تھا، مغلوں کے آخری دور میں وہ استور کا راجہ تھا۔ مغل حکم رانوں کے آخری ادوار میں کشمیر کے راجہ نے اس علاقہ پر تسلط قائم کر لیا اور استور کے حاکم نے اس کی امارت تسلیم کر لی۔ تقسیمِ ہند کے موقع پر مہاراجہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا لیکن استور کو آزادی نصیب ہوئی۔
محمد شفا کے مطابق استور ویلی روڈ متبادل راستہ گلگت بلتستان کے لئے سیاحت و تجارت کے نئے دور کا آغاز کریگا۔ یہ روڈ انتہائی اہمیت و افادیت کا حامل منصوبہ ہے جس کی تعمیر سے انٹر ریجنل روابط میں بہتری آئیگی۔ اس منصوبے سے نہ صرف گلگت، دیامر اور بلتستان کے ڈویژنز میں باہمی زمینی رابطوں میں بہتری آئیگی بلکہ گلگت بلتستان سے ملک کے دیگر علاقوں تک سفری فاصلے سمٹ جائیں گے اور استور ویلی روڈ گلگت بلتستان کے لیے ایک متبادل روڈ کا کام بھی دے گا
ممبر امن کمیٹی ضلح استور کا کہنا تھا کہ استور سیاحوں کو اس لیئے بھی پسند ہے کیونکہ نانگا پربت چوٹی پر جانے کے لیے استور سے ہی راستہ جاتا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ استور سے دس کلو میٹر اور نانگا پربت کے پاس راما جھیل ہے جو دس ہزار فٹ کی بلندی پر ہونے کی علاوہ ٹراؤٹ مچھلی کی بہتات کے لیے بھی مشہور ہے۔ یہاں سیّاح آتے جاتے رہتے ہیں جن کے لیے یہاں پر ریسٹ ہاؤس اور ہوٹل بنایا گیا ہے۔ وادیٔ استور سیاحوں کے لیے ایک پُرکشش مقام ہے۔ وہ یہاں کے سیب، آڑو اور چیری کے باغات کے علاوہ قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور سرسبز و شاداب علاقے میں موجود پہاڑ، دریا، جھیلوں اور چراگاہوں میں وقت گزارنا پسند کرتے ہیں۔
محمد شفا نے روشنی ڈالی کہ ضلع استور کی خوبصورتی اس کے سیاحتی مقامات کے باعث ہے جن میں فیری میڈو، ناگاہ پربت، رامہ ویلی اور اس کے ساتھ جوڈی ایک خوبصورت جھیل، شنگری، روپل پیک، چونگراہ پیک اور لیالاپیک ضلع استور کی پہچان سمجھی جائی ہے۔ استورکے حسین وادیوں میں دیواسائی ، منی مرگ ، کمری ، راٹو ، دریلے جھیل کالاپانی بنگلہ وادی ، تری شنگ ، روپل اور چورت چھوگام بھی قابل زکر ہیں۔استور کے لوگ انتہائی سادہ اور مہمان نواز ہیں جو دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں۔استور کی زبان یعنی( شینا )زبازن گلگت ،استور ،چلاس،ہنزہ نگر،اسکردوکے کچھ علاقوں ،کوہستان اور بھارت کے سرحدی علاقوں جن میں کارگل اور بڑی گورائی سمیت متعدد علاقوں میں بولی جا تی ہے۔
یہاں کے مخصوص پکوان اور تہوار کے ساتھ اگر سیاحوں کو شادی بیاہ اور خوشی کی دیگر تقریبات دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے تو وہ اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔ یورپ اور مغربی ممالک سے آنے والوں کے لیے مقامی لوگوں کا رہن سہن، ان کا اوڑھنا بچھونا اور یہاں کی روایتی چیزیں دل چسپی کا باعث بنتی ہیں۔