حال ہی میں ایک صحافی اور سائبر کرائم ریسرچر عنبرین چوہدری جو بلیک میلن٘گ پر بے پناہ مضامین لکھ چکی ہیں انھیں کے 2 ٹی وی کے پروگرام میں مدعو کیا گیا تھا۔ انہوں نے سامعین کو سائبر کرائمز اور ان سے نمٹے کے بارے میں آگاہ کیا۔
سائبر کرائم کے ذریعے کے جانی والی وہ غیر قانونی سرگرمی ہے جس کے تحت مجرم کمپیوٹر، لیپ ٹاپ یا کسی آلے (gadget) کے ذریعے کسی بھی شخص کا ڈیٹا، معلومات یا حساس نوعیت کے کاغذات چرا لے، ان میں ردو بدل دے، نظام ہیک دے یا پھر کسی کو دھمکی آمیز پیغامات دے
آج سے چند سال قبل پاکستان میں اکثر افراد کو سائبر کرائمز کا مطلب بھی نہیں پتا تھا مگر سال 2016 میں پری ونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے نفاذ کے بعد اب تک گذشتہ چار سالوں میں سائبر کرائمز میں چھ گنا اضافہ ہوا ہے اور اس قانون کے تحت درج شکایات ایک لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہیں۔
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی دستاویزات کے مطابق سال 2016 سے اب تک سائبر کرائمز کے حوالے سے ادارے کو 94 ہزار سے زائد شکایات درج کروائی جا چکی ہیں جس میں جنسی استحصال اور سوشل میڈیا جرائم اور بچوں کی فحش تصاویر اور ویڈیوز کے مقدمات شامل ہیں۔
دنیا کے دیگر حصوں کی طرح پاکستان میں جہاں سائبر جرائم سے وابستہ افراد اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے نت نئے حربے آزماتے ہیں وہیں ڈیجیٹل دنیا میں ذاتی معلومات کا غلط استعمال روکنے یا مالی دھوکہ دہی سے بچنے کے ساتھ ساتھ اس کا شکار ہونے والوں کی دادرسی کے لیے متعلقہ ادارے بھی مختلف اقدامات کرتے ہیں۔
پاکستان میں سائبر کرائم کی روک تھام اور ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی ذمہ داری فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے این آر تھری سی یا سائبر کرائم سیل کی ہے۔ سائبر کرائم کا نام آتے ہی ذہن میں اکاؤنٹ کا ہیک ہونا، ذاتی معلومات لیک ہونا، کمپنیوں کے قیمتی ڈیٹا کی چوری اور سپائی ویئر جیسے خیالات ابھرتے ہیں کیونکہ جب بھی ہم آن لائن جاتے ہیں تو ہمیں ان سب خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
روزانہ کئی سائبر حملے ہوتے ہیں اور کوئی بھی شخص سائبر چوری، ہیک یا جرم کا شکار ہوسکتا ہے۔ معروف عالمی برانڈز کی ویب سائٹس کو ہیک کر کے ان کے ڈیٹا بیس میں محفوظ صارفین کی معلومات کو جو کہ عموماً کریڈٹ کارڈ سے متعلق ہوتی ہیں، چوری کر لیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ چھوٹے کاروبار اور تمام صنعتوں میں جدید سٹارٹ اپس کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر کے پاس مناسب ڈیجیٹل سکیورٹی سسٹم موجود نہیں ہوتا۔
عنبرین چوہدری کے مطابق اس وقت ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے پاس دو سو کے قریب ریگولر سٹاف کام کرتا ہے جبکہ تین سو پچاس نئے افراد کو بھرتی کیا گیا ہے جو ٹریننگ کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے تحت پانچ سائبر زونز بنائے گئے ہیں جو راولپنڈی اور چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں کام کرتے ہیں جبکہ دس نئے سائبر کرائم رپورٹنگ سنٹرز بنائے گئے ہیں جو اسلام آباد، ملتان، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سکھر، حیدرآباد، ڈی آئی خان، ایبٹ آباد می گلگت اور گوادر میں قائم کیے جا رہے ہیں۔