اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان ظاہر کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی اجازت کی استدعا کر دی۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ مجموعی طور پر 105 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں، خصوصی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کو رہا کیے جانے کا امکان ہے، بریت اور کم سزا والوں کو رعایت دے کر رہا کیا جائے گا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ملزمان کو رہائی کے لیے 3 مراحل سے گزرنا ہوگا۔ پہلا مرحلہ محفوظ شدہ فیصلہ سنایا جانا، دوسرا، اس کی توثیق ہوگی اور تیسرے مرحلے میں کم سزا والوں کو آرمی چیف کی جانب سے رعایت دینا شامل ہوگا۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ جنہیں رہا کرنا ہے ان کے نام بتا دیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا، ’جب تک خصوصی عدالتوں سے فیصلے نہیں آ جاتے نام نہیں بتا سکتا‘۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جن کی سزا ایک سال ہے انہیں رعایت دے دی جائے گی۔اس پر سینیئر وکیل اعتزاز احسن بولے کہ اٹارنی جنرل کی بات سن کر مایوسی ہوئی ہے، فوجی عدالتیں جو ٹرائل چلا رہی ہیں، اس میں تو آرمی چیف ہوتے ہی نہیں ہیں،اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ آرمی ایکٹ کے مطابق آرمی چیف سے حتمی منظوری لینا لازمی ہے۔