گلگت بلتستان کی پولیس اس خطے کی وہ فورس ہے جو محدود وسائل، کم تنخواہوں، ناقص سہولیات اور شدید جغرافیائی مشکلات کے باوجود سب سے زیادہ فرنٹ لائن پر کھڑی رہتی ہے۔ چاہے دہشت گردی ہو، سیاحوں کی مدد کرنی ہو، برفباری میں ریسکیو آپریشن، یا کسی سانحے کے بعد لاشیں نکالنے کا کٹھن کام، یہ وہ لوگ ہیں جو سب سے پہلے پہنچتے ہیں اور سب سے آخر میں واپس لوٹتے ہیں۔ لیکن افسوس ،آج وہی پولیس اپنے جائز اور قانونی مطالبات کے لیے سڑکوں پر ہے اور حکومت انہیں سننے کے بجائے دھمکانے، معطل کرنے اور ان کا روزگار چھیننے پر تُلی ہوئی ہے۔
جی بی پولیس کا چارٹر آف ڈیمانڈ کسی لگژری خواہش کی فہرست نہیں، بلکہ بنیادی اور جائز مطالبات کا خاکہ ہے۔ ڈیلی الاؤنس (DA) مانگنا کوئی گناہ نہیں، یہ وہ حق ہے جو ملک کے دیگر صوبوں میں فورسز کو پہلے سے مل رہا ہے۔ ڈسپیرٹی ریڈکشن الاؤنس (DRA) ایک ایسا قانونی حق ہے جو اُن اہلکاروں کے لیے ہے جو کوئی بھی الاؤنس 100 فیصد نہیں لیتے — اور جی بی پولیس اس کی واضح حقدار ہے۔ اس کے علاوہ راشن، واشنگ اور میڈیکل الاؤنس میں 500 فیصد اضافہ کا مطالبہ بھی کسی عیاشی کے لیے نہیں، بلکہ مہنگائی کے اس دور میں اپنی فیملیز کا پیٹ پالنے اور علاج کروانے کی بنیادی ضرورت ہے۔
یہ مطالبات تسلیم کرنے کے بجائے حکومت اور پولیس کے اعلیٰ حکام نے وہ رویہ اختیار کیا ہے جو کسی آمرانہ دور کی یاد دلاتا ہے۔ ضلع غذر کے ایس ایس پی کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن اور آئی جی پولیس کے سخت انتباہات، یہاں تک کہ تنخواہیں بند کرنے اور 60 اہلکاروں کو برطرف کرنے جیسے اقدامات، اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہاں احتجاج کو جمہوری حق نہیں بلکہ جرم سمجھا جا رہا ہے۔
یہ کون سا انصاف ہے کہ جو پولیس اہلکار روز رات کو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر عوام کی خدمت کرتا ہے، وہ اگر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائے تو اسے "غیر قانونی سرگرمی” کا لیبل دے کر خاموش کرانے کی کوشش کی جائے؟ کیا یہی وہ انعام ہے جو برسوں کی قربانیوں کے بعد پولیس کو مل رہا ہے؟
حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ پولیس کا مورال گر گیا تو اس کا نقصان صرف پولیس کو نہیں، پورے خطے کو ہوگا۔ یہ وہ فورس ہے جو سرحدوں (نالوں کی چوٹیوں ) پر بھی چوکس ہے، شہروں میں بھی امن قائم رکھتی ہے، اور پہاڑوں میں پھنسے لوگوں کو بھی ریسکیو کرتی ہے، تم لوگوں کے سرکاری پروٹوکول بھی برداشت کررہی ہیں، ان کے ساتھ یہ رویہ اختیار کرنا دراصل اپنے ہی محافظوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔
آج اگر جی بی پولیس سڑکوں پر ہے تو اس کا مطلب ہے کہ معاملات حد سے بڑھ چکے ہیں۔ اس احتجاج میں شریک پولیس اہلکاروں کو دھمکانا، ان پر کارروائیاں کرنا، یا نوکریوں سے برطرف کرنا مسائل کا حل نہیں بلکہ انہیں مزید بگاڑنے کے مترادف ہے۔ ایسے ہتھکنڈے پولیس اور عوام کے درمیان اعتماد کو تباہ کر دیں گے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ اگر وفاق اور دیگر صوبوں میں پولیس کو بہترے الاؤنسز، سہولیات اور مراعات مل سکتی ہیں تو گلگت بلتستان کی پولیس کو کیوں محروم رکھا جا رہا ہے؟ کیا یہ خطہ پاکستان کی زیر نگرانی نہیں؟ کیا یہاں کے محافظوں کی جان کی قیمت کم ہے؟
حکومت کو چاہیے کہ فوراً جی بی پولیس کے تمام مطالبات تسلیم کرے، برطرف اہلکاروں کو بحال کرے، اور ان کے خلاف جاری دھمکی آمیز رویے کو بند کرے۔ پولیس کو دھمکانے کے بجائے ان کا حوصلہ بڑھایا جائے، کیونکہ حوصلہ ٹوٹنے کے بعد کسی فورس سے بہتر کارکردگی کی توقع رکھنا خودفریبی ہے۔
اگر یہ حکومت اپنے ہی محافظوں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتی تو پھر عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پوچھیں: "کل جب کسی دہشت گردی، آفت یا ہنگامی صورت حال میں پولیس کو بلایا جائے گا تو کیا وہ اسی جذبے سے آئے گی جس جذبے سے آج تک آتی رہی ہے؟”
گلگت بلتستان کی پولیس کو دبانے کے بجائے، اس کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ کیونکہ اگر آپ اپنے محافظ کو محروم، کمزور اور خوفزدہ کر دیں گے تو یاد رکھیں ریاست کا سب سے مضبوط قلعہ آپ کے ہاتھوں سے گر جائے گا