یہ ہے وہ حقیقی محافظ جس نے وطن کی محبت میں اپنے اکلوتے جواں سالہ لخت جگر کیپٹن تیمور حسن شہید کو
آخری دعا کے ساتھ منوں مٹی کے سپرد کیا، کیپٹن تیمور حسن جس روز شہادت کے رتبے پر فائز ہوا اس سے ٹھیک دو
دن بعد ان کی شادی تھی۔
میں بریگیڈیئر راجہ حسن عباس کو تب سے جانتا ہوں جب انہوں نے پاک فوج میں شمولیت اختیار نہیں کی تھی ان کا تعلق فوجی گھرانے سے ہے ان کے والد مرحوم پاک فوج سے صوبیدار ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ بریگیڈیئر حسن عباس شباب کے اولین دور سے ہی پاک فوج میں شمولیت کے لئیے بے چین رہتے تھے، چونکہ میرا یارانہ ان کے چھوٹے بھائی راجہ عامر عباس کے ساتھ تھا ہم ایک ہی محلے میں رہتے تھے، بچپن سے جوانی تک کا سفر میں ہمارا ساتھ رہا، بریگیڈیئر حسن کو ہم بھائی جان کہتے تھے اور وہ حقیقی معنوں میں بڑے بھائیوں جیسا کردار نبھاتے تھے، ہمارا خوب خیال رکھتے تھے، وہ اکثر ہمیں وطن سے محبت کا درس دیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ وطن ہماری شناخت ہے اس کی آزاد فضاؤں کی ہمیں حفاظت کرنی ہے، مجھے اکثر کہا کرتے تھے کہ شیر تمہارا جس خطے سے تعلق ہے وہاں کے لوگوں نے اس ملک کے لئیے بڑی قربانیاں دی ہے میں آپ کے خطے سے عقیدت رکھتا ہوں، میں ہر اس شخص سے عقیدت رکھتا ہوں جو وطن کا محافظ ہے، یہ ان دنوں کی بات ہے جب حسن بھائی نے بارھویں جماعت کا امتحان دیا تھا تو انہیں نتائج کا بڑی بےصبری سے انتظار رہتا تھا ہم اکثر کہاں کرتے تھے کہ بھائی جان نتائج تو اپنے وقت پر جاری ہوں گے آپ کیوں اتنا بے چین رہتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ میں جب بھی اس مقدس وردی کو دیکھتا ہوں تو میری کیفیت بدل جاتی ہے مجھے ایک لمحہ کو بھی قرار نہیں ملتا میری روح تک بے چین ہوتی ہیکہ میں یہ شہدیوں اور غازیوں کا پاک لباس کب ذیب تن کروں گا۔
بلآخر ایک روز ان کا خواب پورا ہوگیا اور وہ پاک فوج میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ بھرتی ہوگئے۔
پاک فوج میں شمولیت کے بعد ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ تھم گیا، ، مہینوں بعد کبھی ان سے ملاقات ہوتی تھی تو انہیں ہم یونیفارم میں دیکھتے تھے، میں نے ایک روز کہا کہ بھائی جان آف ٹائم میں بھی آپ وردی پہنے رہتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ محافظوں کا آف ٹائم تب تک نہیں ہوتا جب تک وہ لحد کے سپرد نہیں ہوتے، میرا لباس ہی یہی ہے نہ صرف لباس میرا کفن بھی یہی ہے یہ لباس میری روح کو تسکین فراہم کرتا ہے، یہ لباس مجھے اپنے وطن سے کئے عہد کو تجدیدِ فراہم کرتا ہے
میں گواہ ہوں کہ بریگیڈیئر راجہ حسن عباس حقیقی معنوں میں اس ملک کا محافظ ہے، انہوں نے اپنے اکلوتے فرزند کو بھی ملک کی حفاظت کے لئیے چنا گو کہ وہ چاہتے تو تیمور عباس کو کسی اور شعبے سے بھی منسلک کرسکتے تھے تیمور حسن تھا بھی بڑا لائق وہ کسی بھی شعبے میں خود کو منوا سکتا تھا مگر اس خانوادے نے وطن کی حفاظت کا عہد جو کیا تھا،
شہادت کی خواہش رکھنے والے بریگیڈیئر حسن کے خواب کو ان کے اکلوتے جواں سال فرزند کیپٹن تیمور نے خود کو وطن پر قربان کر کے پورا کیا
کیپٹن تیمور اپنی شادی کے لئیے چھٹیاں پہلے سے ہی لے سکتا تھا مگر نہیں اس نے کہا تھا کہ میں شادی سے ایک روز پہلے آوں گا تب تک میں اپنا فرض نبھاؤں گا جو میرے وطن کی حفاظت کا مجھ پر ہے اور یوں اس مرد مجاہد نے خود کو اپنے وطن کے لئیے قربان کر دیا۔
بریگیڈیئر راجہ حسن عباس جیسے سپوت اس دھرتی میں جب تک جنم لیتے رہیں گے یہ ملک قائم و دائم رہے گا۔
میں سلام عقیدت پیش کرتا ہوں اس مجاہد کو جس نے اپنے جواں سالہ بیٹے کو اس ملک کے لئیے قربان کیا اور ساتھ اس جذبہ کا بھی اظہار کیا کہ اگر میرے دس بیٹے ہوتے تو میں سب کو اس ملک کے حفاظت پر مامور کرتا۔ بس میرا ملک شاد و آباد رہے بریگیڈیئر حسن اور اس کی آل اس ملک پر لاکھوں بار قربان ہونے کے لئیے ہمہ وقت تیار ہے۔