اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ گزشتہ چند دہائیوں میں ملک میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات واضح ہو چکے ہیں، جنہوں نے معیشت، ماحولیات اور انسانی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، موسمیاتی تبدیلی پاکستان میں شدید موسمی واقعات کی سب سے بڑی محرک ہے، جس سے بارشوں کا نظام بگڑ گیا اور گلیشیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
پاکستان میں مون سون کی بارشوں میں 20 سے 30 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جو غیر معمولی سیلابوں کا باعث بن رہا ہے۔ سن 2022 کے تباہ کن سیلاب نے ملک کو 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچایا اور تین کروڑ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے۔ یہ سیلاب زراعت، بنیادی ڈھانچے اور رہائشی علاقوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے۔ اس کے علاوہ، شمالی علاقوں میں گلیشیرز ہر سال ایک میٹر سے زیادہ کی شرح سے پیچھے ہٹ رہے ہیں، جو پانی کے وسائل اور ماحولیاتی توازن کے لیے خطرہ ہے۔ پگھلتے گلیشیرز نہ صرف سیلابوں کا خطرہ بڑھاتے ہیں بلکہ مستقبل میں پانی کی کمی کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلی تین دہائیوں میں پاکستان کا اوسط درجہ حرارت 0.6 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے۔ اس اضافے نے موسموں کے قدرتی چکر کو متاثر کیا، جس سے خشک سالی، غیر متوقع بارشیں اور شدید گرمی کی لہریں معمول بنتی جا رہی ہیں۔ ان تبدیلیوں سے زراعت، جو پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ قابل تجدید توانائی، جنگلات کی بحالی، اور پانی کے موثر انتظام جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔ عالمی تعاون اور مقامی سطح پر آگاہی بھی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پاکستان کو اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے جامع اور پائیدار پالیسیوں کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ مستقبل یقینی بنایا جا سکے۔