گلگت بلتستان میں نئی جھیلیں وجود میں آنے کا سلسلہ جاری ہے، حالیہ شدید بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب اور گلیشیئر پھٹنے سے 2 بڑی جھیلیں وجود میں آ گئیں ۔
ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ضلع غذر کے مطابق 4 اگست کو وادی گوپس گاؤں کھٹم میں سیلابی ریلے کے ملبے سے دریا نے رخ تبدیل کر دیا، اس جگہ پر دریا غذر اپنے روایتی راستے کو چھوڑ کر گلگت چترال روڑ کے اوپر سے بہنے لگا ۔
ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے مطابق کھٹم گاؤں میں سیلابی ملبے کے نتیجے میں 2 ہزار فٹ لمبی اور 50 میٹر سے زائد چوڑی جھیل وجود میں آئی، اس وجہ سے گلگت-چترال روڑ تاحال بند ہے اس جھیل سے قریبی چھوٹی آبادی متاثر ہوئی، جبکہ درخت اور وسیع اراضی جھیل میں ڈوب گئی ۔
گلگت بلتستان کی انتظامیہ اس جھیل کے اطراف سے محفوظ راستہ تلاش کرنے میں مصروف تھی کہ غذر گاؤں تالی داس میں میں ایک روز قبل برفانی جھیل پھٹنے سے دریا غذر کا پانی بھاری پتھروں پر مشتمل ملبہ دریا میں گر کر دریا کے پانی کو 8 سے 9 گھنٹے تک روک دیا ۔
صوبائی حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق کے مطابق کئی گھنٹوں تک پانی کھڑا ہونے کے باعث سات کلومیٹر تک دریا کا پانی پھیل کر مصنوعی جھیل بن گئی ۔
غذر سے تعلق رکھنے ممتاز سماجی شخصیت اور انسانی حقوق کے عہدیدار اسرار الدین اسرار کا کہنا ہے غذر میں قدرتی سیلاب سے دریا کا پانی بند ہو کر جھیلیں بننے کی تاریخ پرانی ہے، ان کے مطابق 80 کی دہائی میں خلتی جھیل بن گئی جو ابھی تک موجود ہے اور علاقے میں سیاحتی حوالے سے سیاحتی دنیا میں یہ جھیل اپنی بڑی پہچان رکھتی ہے ۔
اسرار الدین کے مطابق 90 کی دہائی میں سوسٹ جھیل وجود میں آئی اور گزشتہ سال ہائم کے مقام پر بھی سیلاب کے نتیجے میں ایک جھیل بنی ہوئی ہے ،اس وجہ سے سب زیادہ جھیلوں کی تعداد ضلع غذر میں پائی جاتی ہے ۔
یاد رہے کہ 2010 میں ہنزہ عطاء آباد میں پہاڈ کٹ کر دریا میں گر کر پانی بند ہونے سے سب سے بڑی عطا آباد جھیل بن گئی، جو اس وقت سیاحوں کو سب سے بڑی تفریح گاہ ہے ۔