دیامر بھاشا ڈیم، جو 1980 کی دہائی میں ایک خواب کی صورت سامنے آیا، اب تیزی سے حقیقت بن رہا ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان کے پانی اور توانائی کے مسائل کا دیرپا حل ثابت ہوگا بلکہ ملکی معیشت میں بھی نئی جان ڈالے گا۔
اس عظیم منصوبے کے تحت دریائے سندھ کا بہاؤ ڈائیورژن ٹنلز کے ذریعے موڑ دیا گیا ہے تاکہ ڈیم کی تعمیر ممکن بنائی جا سکے۔ اس مقام پر 18 سے زائد سڑکیں اور ایک جدید پل تعمیر کیا گیا ہے، جو منصوبے کے مختلف حصوں کو جوڑتے ہیں۔
دیامر بھاشا ڈیم 8.1 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ ذخیرہ زرعی شعبے میں انقلاب کا پیش خیمہ بنے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ، ڈیم سے 4500 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی، جو ملک کے توانائی بحران پر قابو پانے میں مدد دے گی۔
یہ ڈیم 1.1 کلومیٹر طویل اور 282 میٹر بلند ہوگا، اور اسے دنیا کا سب سے بڑا رولر کمپیکٹڈ کنکریٹ (RCC) ڈیم قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان کی ترقی کا ضامن بنے گا۔
منصوبے پر کام کرنے والی فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) نے مقامی سطح پر بھی ترقیاتی سرگرمیوں کو فروغ دیا ہے۔ اب تک تقریباً 5000 مقامی نوجوانوں کو مختلف فنی مہارتوں کی تربیت دی جا چکی ہے۔ یہ نوجوان نہ صرف اپنے خاندان کی کفالت کر رہے ہیں بلکہ علاقے کی ترقی میں بھی بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔
ایف ڈبلیو او کے ماہر انجینیئرز اور محنتی ورکرز شدید موسم، دشوار گزار علاقوں اور تکنیکی چیلنجز کے باوجود دن رات اس قومی منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ دیامر بھاشا ڈیم صرف ایک ڈیم نہیں بلکہ پاکستان کے روشن اور خود کفیل مستقبل کی بنیاد ہے۔