فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی حکومت اور عدالت عظمیٰ کو دی گئی رپورٹ تجویز بتایا گیا کہ بدنام زمانہ دھرنے میں کسی ادارے کے ملوث ہونے کے کوئی مصدقہ شواہد نہیں ملے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سابق انٹیلی جنس چیف جنرل (ر) فیض حمید نے حکومت کی ہدایات کے مطابق کام کیا۔
سابق اے آئی جی کے پی ڈاکٹر اختر علی شاہ کی سربراہی میں سابق آئی جی طاہر عالم اور خوشحال خان سمیت کمیشن نے اپنی 243 صفحات پر مشتمل رپورٹ سپریم کورٹ اور حکومت کو پیش کی۔
انھوں نے صوبے میں اس وقت کی شہباز شریف کی زیرقیادت حکومت کو دھرنے کو منتشر کرنے میں ناکامی کی ذمہ داری عائد کی، حالانکہ رپورٹ میں موجودہ وزیر اعظم کا نام نہیں لیا گیا تھا۔رپورٹ میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید اور سابق ڈی جی رینجرز میجر جنرل نوید اظہر حیات کے دھرنے سے تعلق کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے۔
رپورٹ میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، موجودہ آئی بی چیف فواد اسد اللہ، آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید، آئی بی کے سابق سربراہ آفتاب سلطان، سابق آئی جی پنجاب عارف نواز، سمیت مختلف حکام کے بیانات شامل ہیں۔ اور سابق ڈی جی رینجرز لیفٹیننٹ جنرل (ر) نوید اظہر حیات کو رپورٹ میں شامل کیا گیا۔ واضح رہے کہ صرف پیمرا کے سابق چیئرمین ابصار عالم نے حمید کے خلاف بیان دیا تھا۔