گلگت کی تاریخ میں کرغزیز اور کاشغریوں کی ہجرت بڑی ہی مشہور ہیں۔ ہمارے ایک بزرگ نور محمد کاشغری گلگت میں مقیم تھے۔ ان کے ساتھ میری بچپن سے شناسائی تھی، کیسے جب وہ بطور ڈرائیور اے پی اے استور فرمان ولی صاحب کے پاس اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے اور ان ہی دنوں میں استور سکول میں پڑھتا تھا۔ بعد میں جب میں عملی زندگی میں آیا تو ان سے گلگت میں اکثر ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ رشتے ناطوں اور ہمسایہ گری کے تعلق سے بھی کاشغریوں سے ملنا جلنا رہتا تھا۔ وہ اکثر اپنے اور اپنے والد کی ہجرت بذریعہ منتکہ پاس سناتے تھے کہ انہیں اس ہجرت میں کتنی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت کاشغر سے جتنے بھی کاشغری آئے وہ سب کے سب گلگت میں آباد ہوئے، لیکن گلگت کے مذہبی حادثات اور تفرقے نے کسی کو کہیں کا نہیں چھوڑا اور آہستہ آہستہ یہاں سے ساری کاشغری ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس وقت یہ کاشغری گلگت چھوڑ کر پاکستان کے مختلف حصوں میں آباد ہوگئے ہیں۔
دوسری ہجرت 1978 کی ہمارے سامنے ہوئی، جب چھوٹے پامیر میں رہنے والے تقریباً 1300 کرغزیز خاندانوں کو سوویت خطرے کا سامنا ہوا۔ جان بچانے کے لیے وہ اپنے سردار حاجی رحمان قُل کی قیادت میں ہندوکش پہاڑوں کو عبور کرکے گلگت اشکومن وادی پہنچے۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں میں کچھ سامان اور زیادہ تر گھریلو اشیاء لائیں۔ چند مہینوں کے اندر ان کے جانور یا تو بیچ دیے گئے یا ذبح کر دیے گئے اور چراگاہوں اور چارے کی کمی کی وجہ سے ان کے ریوڑ مکمل طور پر ختم ہو گئے۔ گرمی اور نئی بیماریوں کا سامنا کرتے ہوئے، ان کے پہلے موسم گرما میں غذر وادی پاکستان میں قیرغیزوں پر اثر انداز ہوا، جس کے نتیجے میں ایک سو سے زیادہ لوگوں کی موت ہوئی۔
ان کی مشکلات کی وجہ سے، ان کے سردار حاجی رحمان قُل نے پاکستان سے باہر ایک نئی جنت کی تلاش شروع کی جہاں وہ ایک نئی زندگی دوبارہ تعمیر کر سکیں۔ حاجی رحمان قُل نے 1980 کی گرمیوں میں امید کے ساتھ اپنے لوگوں کو الاسکا لے جانے کی کوشش کی اور انہوں نے امریکہ سے درخواست کی، لیکن امریکی حکام سے مایوس ہونے کے بعد ان کے سردار کا اگلا قدم اسلام آباد میں ترک سفارت خانے سے رابطہ کرنا تھا تاکہ انہیں ترکی منتقل کرنے کی درخواست کی جا سکے۔ جب جنرل کینان ایورین نے 1981 میں پاکستان کے دورے کے دوران ان کے بارے میں سنا تو ان کا دورہ ان کے لیے نئی امید کا دروازہ کھول گیا۔ آخرکار ترکی نے ان کی ترکی میں دوبارہ آباد ہونے کی درخواست قبول کر لی، اور انہیں 3 اگست 1982 کو ایڈانا ترکی کے لیے ہوائی جہاز کے ذریعے منتقل کیا گیا۔ ایڈانا سے ترک حکومت نے انہیں انطالیہ کے کنارے منتقل کیا۔ ترک حکومت نے انہیں جنوب مشرقی ترکی کے کرد علاقے میں کرد باغی کے خلاف ملیشیا کے طور پر آباد کیا۔
انسان ہجرت تب کرتا ہے جب حالات جینے کے قابل نہ رہیں۔ کرغزیز اور کاشغریوں نے سوویت یونین اور چین کے ظلم سے جان بچائی، لیکن آج کے دن تک اس خطے گلگت بلتستان کے بسنے والوں کے ہاتھوں ہی یہاں سب کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ لوگ ہجرت کی سوچ لیے بیٹھے ہیں—آج ہم روتے ہیں کہ سیاحت ختم ہو گئی، کاروبار نہیں رہا، روزگار ناپید ہے۔ اب پے در پے سیلاب سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اللہ بھی ہم سے ناراض ہیں ۔ وہ کیسے اس پہ آپ خود غور کریں ۔ میرے نزدیک ہم خود اس بے سکونی اور بد امنی کے ذمہ دار ہیں نہ اپنا تحفظ کرنا جانتے ہیں اور نہ دوسروں کا تحفظ کا خیال ہمارے دل میں ہے ۔ اور یہ سوچ صرف ماضی کی یاد نہیں ۔ماضی کیا ہے سیکھنے کا عمل ہے لیکن حقیقت آج اس کے بر عکس ہے نہ ہم بدلے ہیں اور نہ ہمارے رویے ۔
ہدایت اللہ اختر