اسلام آباد: (مدثر حسین) جنوری کی 16 تاریخ کو صدر جوبائیڈن نے امریکی عوام سے الوداعی خطاب کیا، اس خطاب میں بائیڈن نے جہاں امریکہ کی اندرونی معاملات پر اظہار خیال کیا، وہاں صدر بائیڈن نے ایک ابھرتے عالمی خطرے پر کھل کر لب کشائی کی۔
عالمی امن و استحکام کو درپیش یہ خطرہ ٹیکنالوجی انڈسٹریل کمپلکس کے نام سے شہرت پا رہا ھے۔ اس سے پہلے سیاسی و سفارتی گفتگو میں ملٹری انڈسٹریل کمپلکس کے حوالے دیئے جاتے تھے، اب ارٹیفیشل انٹیلجنس کی ترقی نے ملٹری انڈسٹریل کمپلکس کی اصطلاح قصہ پارینہ بنا دی۔ یہ ملٹری انڈسٹریل کمپلکس کی اصطلاح برسوں تک عالمی سیاست میں چھائی رہی، سرد جنگ سے لیکر عراق او افغانستان میں جنگوں تک عالمی امور کے ماھرین اس اصطلاح کو دھڑا دھڑ استمال کرتے رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ اصطلاح بھی ایک امریکی صدر آئزن ہاور نے اسی طرح قوم کے نام پیغام میں استمال کی تھی، جو بعد میں عالمی سیاست کی پسندیدہ اصطلاح بن گئ، تاہم اب ٹیکنالوجی نے عالمی منظر نامے کو نئی شکل دی ہیں۔
گمان یہ ھے کہ امریکی انتخابات میں ایلون مسک کے ایکس اور زکربرگ کے فیس بک نے رائے عامہ کو کملاہیرس کے خلاف اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں بنایا تھا، یہی وجہ ھے کہ کملا ہیرس تمام تر زہانت و مدلل گفتگو کے باوجود ٹرمپ جیسے پاپولسٹ سے ہار گئ۔ صدر بائیڈن نے الوداعی خطاب میں کہا تھا کہ امریکی ووٹرز مس انفارمیشن کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا آزادی صحافت اور جمہوریت کے لیے طاقت کی بجائے خطرہ بنتے جارہے ہیں۔ سنسرشپ اور ایڈیٹوریل جانچ سے آزاد سوشل میڈیا لوگوں کی زندگیوں کو ہر زاویے سے بدل رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کا انقلاب کم پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ دونوں طبقوں کو یکساں اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔
یہ صورتحال صرف امریکہ تک محدود نہیں بلکہ پاکستان بھی اس سوشل میڈیا انقلاب سے سخت متاثر ھے، کیونکہ امریکہ کی بہ نسبت پاکستان میں جہوری اقدار، لوگوں کی فہم اور معاشرتی نقشہ کمزور و ناقص رہے ہیں۔ اس صورتحال کا فائدہ چند سیاسی پارٹیاں خوب اٹھا رہی ہیں جو جھوٹ پر جھوٹ چلا کر پاکستانیوں کو ایک دوسرے سے متنفر کرتی جا رہی ہیں۔ 24 نومبر کو ڈی چوک میں احتجاج کے دوران سینکڑوں لوگوں کی مبینہ شہادت جیسے جھوٹ پلک جھپکتے ہی وائرل ہو جاتے ہیں۔ سیاسی مفادات کے لیے بولے جانے والے جھوٹ پاکستانی معاشرے کو اندر سے کھوکھلا بناتے جارہے ہیں۔ یہ صورتحال کسی بھی وقت ایک خوفناک طوفان کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔ اگرچہ حکومت نے پیکا آرڈنینس اور سائبر کرائم لاز جیسے اقدامات کے ذریعے اس شتر بے مہار کو نکیل ڈالنے کی کوشش کی ھے لیکن حکومت کی اپنی کریڈیبلٹی اتنی کمزور ھے کہ عوام کو نہ ادروں پر اعتماد ھے نہ حکومتی شخصیات پر، اس اعتماد کی کمی کا فائدہ سوشل میڈیا پر بولے جانے والے جھوٹ کو مل رہا ھے ،جو ایک نظریے کی شکل میں نئی نسل کو فسادی بنا رہی ہیں۔
پاکستان جیسے ملک کے لیے مادر پدر آزاد سوشل میڈیا blessing نہیں بلکہ ایک curse ھے ۔ یہ خطرہ ملکی سلامتی اور استحکام کو درپیش دیگر خطرات سے شدت میں کم نہیں بلکہ کئی حوالوں سے ان سے بھی زیادہ سنگین مسلہ ھے۔ آرٹیفیشل انٹیلجنس میں انے والے دنوں میں مزید ترقی اس مسلے کی شدت بڑھاتی جائیگی۔ ایلون مسک اور زکربرگ جیسے ارب پتی لوگوں کو فائدہ بھی اس جھوٹ کے کاروبار میں ہیں۔ یہ چند ارب پتی مل کر پوری دنیا کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ان چند افراد کی معمولی غلطی عالمی سطح پر اربوں لوگوں کی زندگیاں داو پر لگا سکتی ہیں۔ وقت اگیا ھے کہ پالیسی میکرز اس مسلے پر کھل کر بات کریں اور عوام کو اس تباہی سے بچائے جو سوشل میڈیا ڈھاتا جا رہا ہے۔