اسلام آباد: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں سی ڈی اے کی جانب سے 37 ارب روپے کے 29 کمرشل پلاٹس کی غیر شفاف نیلامی کا انکشاف سامنے آیا ہے۔
کمیٹی نے وفاقی دارالحکومت میں 14 ارب روپے کے ہائوسنگ منصو بے کی لاگت 31 ارب تک پہنچنے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے نیا پاکستان ہائوسنگ منصو بے کا جائزہ لینے کیلئے معاملہ وزارت داخلہ کو بھجوا دیا، کمیٹی نے سیکرٹری خزانہ کی مصروفیات کا شیڈول بھی طلب کر لیا ۔ کمیٹی نے بھارہ کہو انٹر چینج کی تعمیر میں پیپرا قوانین کی خلاف ورزی سمیت تاخیر اور بے ضابطگیوں کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ،کمیٹی نے وزارت داخلہ کے ذیلی اداروں کے آڈٹ پیراز 24-2023 کے جائزے کے دوران آئی جی ایف سی اور ڈی جی رینجرز سمیت دیگر افسروں کے اجلاس میں نہ آنے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے آڈٹ اعتراضات موخر کردئیے ۔ چیئرمین پی اے سی جنید اکبر کی زیرِ صدارت اجلاس میں وزارت بین الصوبائی رابطہ کے سال 24-2023 کے آڈٹ پیراز زیر غور آئے ، سیکر ٹر ی وزارت بین الصوبائی رابطہ نے کہا کہ ڈی اے سی میں انکوائری کرکے ذمہ داران کو فکس کیا ہے ، چیئرمین پی اے سی نے 15 روز میں ریکوری کرکے معاملے کو نمٹانے کی ہدایت کردی۔
اجلاس میں گن اینڈ کنٹری کلب کی طرف سے بغیر لائسنس کے اسلحہ اور گولہ بارود رکھنے کا آڈٹ پیرا زیر غور آیا، کمیٹی ارکان کی طرف سے بغیر لائسنس اسلحہ رکھنے پر تحفظات کا اظہار کیا ۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ سی ڈی اے بورڈ نے 37 ارب سے زائد رقم کے 29 کمرشل پلاٹوں کی نیلامی کو منظور کیا ، 5 پلاٹوں کی نیلامی کو مؤخر اور ایک پلاٹ سے متعلق قانونی پیچیدگیاں ہیں۔چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ سی ڈی اے فنانشل سٹیٹمنٹ کیوں تیار نہیں کی؟ آڈٹ حکام نے کہا کہ سی ڈی اے ایکٹ کے تحت چارٹرڈ اکاؤ نٹنٹ کی تصدیق کے بعد سی ڈی اے اپنی فنانشل سٹیٹمنٹ وفاقی حکومت کو دینے کا پابند ہے ، سی ڈی اے ایکٹ کے تحت آرڈیننس کی خلاف ورزی پر قید بھی ہو سکتی ہے ۔
اجلاس میں میں سی ڈی اے کی فنانشل سٹیٹمنٹ نہ بننے کا انکشاف بھی سامنے آیا، ممبر فنانشل نے کہا کہ سی ڈی اے کی فنانشل سٹیٹمنٹ کبھی بھی نہیں بنی ۔پی اے سی ارکان نے سی ڈی اے کی فنانشل سٹیٹمنٹ تیار نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین سی ڈی اے کا رویہ بالکل نامناسب ہے ، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سی ڈی اے سے 6 ماہ میں فنانشل سٹیٹمنٹ طلب کرلی۔ پی اے سی میں وزارت داخلہ کو دی جانے والی ضمنی گرانٹ کی قومی اسمبلی سے منظوری نہ لینے کا انکشاف ہوا ہے ، اکائونٹس کے جائزے کے دوران پی اے سی وزارت خزانہ کی نمائندے کے جواب سے غیر مطمئن نظر آئے جس پر پی اے سی نے فوری طور پر سیکرٹری خزانہ کو طلب کر لیا۔پبلک اکانٹس کمیٹی نے وزارت داخلہ کی 3 ارب گرانٹ لیپس ہونے پر برہمی کا اظہار بھی کیا۔