Close Menu
K2 Times | کے ٹو ٹائمزK2 Times | کے ٹو ٹائمز
    مقبول خبریں
    بلاگ

    گلگت بلتستان میں خالصہ سرکار زمینوں کی حکومتی اصطلاح اور تاریخی حقیقت

    اگست 8, 2025
    خاص خبریں

    دریائے ہنزہ میں پانی کی سطح بلند، شاہراہ قراقرم کا حصہ بہہ جانے سے پاکستان اور چین کا زمینی راستہ منقطع

    اگست 8, 2025
    خاص خبریں

    بنوں میں سیکیورٹی چیک پوسٹ پر کواڈ کاپٹر حملہ، ایک ایف سی اہلکار شہید، 3 زخمی

    اگست 8, 2025
    Facebook X (Twitter) Instagram
    اگست 8, 2025
    Facebook X (Twitter) Instagram
    Facebook X (Twitter) Instagram
    K2 Times | کے ٹو ٹائمزK2 Times | کے ٹو ٹائمز
    رابطہ کریں کےٹو ٹی وی
    • صفحہ اول
    • قومی خبریں
    • ہزارہ
    • پوٹھوہار
    • گلگت بلتستان
    • چترال
    • شوبز
    • دلچسپ و عجیب
    • کھیل
    • کےٹو ٹی وی
    KAY2 TV
    K2 Times | کے ٹو ٹائمزK2 Times | کے ٹو ٹائمز
    You are at:Home»بلاگ»گلگت بلتستان میں خالصہ سرکار زمینوں کی حکومتی اصطلاح اور تاریخی حقیقت
    بلاگ اگست 8, 2025

    گلگت بلتستان میں خالصہ سرکار زمینوں کی حکومتی اصطلاح اور تاریخی حقیقت

    اگست 8, 20257 Mins Read
    Facebook Twitter Email
    Share
    Facebook Twitter LinkedIn Email

    تحریر: شیر علی انجم:

    گلگت بلتستان میں "خالصہ سرکار” کی اصطلاح ایک پیچیدہ اور قومی اہمیت کا حامل مسئلہ ہے، مگر بدقسمتی سے اس اہم موضوع کی طرف اب تک کسی سیاسی، سماجی یا مذہبی تنظیم نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ ہمارے ہاں "خالصہ سرکار” سے مراد وہ اراضی ہے جو بنجر ہو یا قابل کاشت، زیر استعمال ہو یا خالی پڑی ہو، لیکن کسی فرد واحد کی ملکیت میں نہ ہو۔ یہ زمینیں قدیم بندوبستی کاغذات اور محکمہ مال کے ریکارڈ میں "خالصہ سرکار” کے نام سے درج ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطے میں ایسی زمینوں کو سرکاری ملکیت تصور کیا جاتا ہے، اور ضرورت پڑنے پر حکومت انہیں بغیر کسی معاوضے کے اپنی تحویل میں لے کر استعمال کرتی ہے۔
    عوام کے ذہنوں میں شروع سے یہ بات راسخ کی گئی ہے کہ خالصہ سرکار سے مراد سرکاری زمین ہے، جس پر صرف حکومت کو ملکیت اور تصرف کا حق حاصل ہے۔ تاہم، گلگت بلتستان میں لفظ "سرکار” کی تشریح خود واضح نہیں، کیونکہ اس خطے کی قانونی حیثیت بھی غیر واضح ہے۔ نہ تو اسے پاکستان کے آئین کے تحت مکمل تحفظ حاصل ہے، اور نہ ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اسے سیاسی و معاشی حقوق دیے گئے ہیں۔ اس من گھڑت تشریح کی وجہ سے عوام کو اکثر اپنی زیر استعمال زمینوں سے بغیر معاوضے کے محروم ہونا پڑتا ہے۔
    تقسیم ہند کے وقت گلگت بلتستان سابقہ ریاست جموں و کشمیر کا تیسرا بڑا صوبہ تھا، جسے "صوبہ گلگت لداخ” کہا جاتا تھا۔ آج بھی سرکاری دستاویزات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اسے اسی نام سے تسلیم کیا جاتا ہے، اور پاکستان و بھارت دونوں اس حقیقت کو مانتے ہیں۔ اس تناظر میں تاریخی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ڈوگروں سے قبل سکھ سلطنت برصغیر میں ایک اہم طاقت تھی، جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی قیادت میں 1799ء سے 1849ء تک قائم رہی۔ اس سلطنت نے لاہور پر قبضہ کیا اور پنجاب سمیت گرد و نواح کے علاقوں پر اپنی حکمرانی قائم کی۔
    اس وقت ہندوستان میں کئی سکھ تنظیمیں "خالصہ سرکار” یا سکھ پنجابی بادشاہت کی بحالی کے لیے سیاسی جدوجہد کر رہی ہیں۔ یہ سلطنت امرتسر اور لاہور سے ابھری اور ایک وقت میں خیبر پاس سے تبت کے وسط تک اور مٹھی کوٹ سے کشمیر تک پھیلی ہوئی تھی۔ سکھوں کے گورنر جموں، گلاب سنگھ کے وزیر زورآور سنگھ نے لداخ کو مقامی راجاؤں کی ملی بھگت سے 1840ء میں فتح کیا۔ اسی سال انہوں نے سکردو پر بھی قبضہ کیا اور بلتستان کے عظیم بادشاہ راجہ احمد شاہ مقپون کو ان کے خاندان سمیت گرفتار کرکے کشمیر کے ترال میں قید کردیا۔ اس کے بعد سکھ فوج نے بلتی سپاہ کو شامل کرکے تبت پر حملہ کیا۔ ادھر سکھ فوج کے کرنل نتھو شاہ نے گلگت پر حملہ کرکے راجہ گوہر امان کو شکست دی اور 1848ء میں نو مل کے قریب جنگ میں ہلاک ہوگئے۔
    تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ خالصہ سرکار کے دور میں اس کے چار صوبے تھے: لاہور، ملتان، پشاور اور کشمیر۔ زورآور سنگھ نے سرینگر کے حکمران کے ماتحت گلگت پر حملہ کیا تھا۔ 16 مارچ 1840ء کو معاہدہ امرتسر کے تحت انگریزوں نے گلگت، لداخ اور بلتستان کی وزارتیں جموں کے ڈوگرہ راجے کے حوالے کردیں۔ اس تبدیلی سے پریشان کرنل نتھو شاہ سرینگر پہنچے تاکہ اپنی تنخواہ اور مراعات کے بارے میں معلوم کریں۔ ڈوگروں نے انہیں گلگت کی عملداری جاری رکھنے کی اجازت دی۔ بالآخر 1860ء میں کرنل نرائن سنگھ نے گلگت پر مکمل قبضہ کرلیا۔ اس طرح سکھوں کے دور میں بلتستان کی زیادہ تر اراضی خالصہ سرکار کی ملکیت بن گئی، اور لینڈ ریفارمز کے ذریعے زمینوں کی قانونی حیثیت مرتب کی گئی۔ باقی بچی زمینوں کو "خالصہ سرکار” یعنی سکھ حکومت کی ملکیت قرار دیا گیا۔
    سکھ دور سے ڈوگرہ دور تک کے تاریخی تناظر میں دیکھیں تو 26 اکتوبر 1947ء کو مہاراجہ کے ہندوستان سے الحاق کے اعلان کے بعد مقامی لوگوں کے حقوق کی پامالی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ ڈوگروں سے آزادی کے بعد بھی گلگت بلتستان کے باشندوں کو نہ تو پاکستان کی آئینی شہریت حاصل ہوئی اور نہ ہی وہ ریاست جموں و کشمیر کی قانونی شہریت برقرار رکھ سکے۔ اس کے باوجود جب وسائل کی بات آتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ خطہ پاکستان کا اثاثہ، ماتھے کا جھومر اور اس کی پہچان ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان آج بھی گلگت بلتستان کو جموں و کشمیر کا قانونی حصہ سمجھتا ہے۔ یہاں کے عوام کو ووٹ کا حق حاصل نہیں، اور نہ ہی ان کے نمائندوں کو قومی اسمبلی یا سینٹ تک رسائی دی گئی ہے۔
    اگر عوام اپنے حقوق کا مطالبہ کریں تو ان پر غداری کے الزامات لگا کر خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ انقلاب گلگت کی ناکامی اور اقوام متحدہ کی 13 اگست 1948ء کی قرارداد کے باوجود پاکستان اور آزاد کشمیر کے حکمرانوں نے 28 اپریل 1949ء کے معاہدہ کراچی کے ذریعے اس خطے کو ایک طرح سے لیز پر لے لیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہاں کے عوام کے اجتماعی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں، اور خالصہ سرکار کی زمینوں کو بغیر معاوضے کے جب چاہے قبضے میں لیا جاتا ہے۔
    یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گلگت بلتستان اپنے قدرتی وسائل، آبی ذخائر اور دفاعی اہمیت کی وجہ سے پاکستانی کہلاتا ہے، مگر یہاں قانون کی عملداری اسلام آباد کے مزاج پر منحصر ہے۔ 1927ء کا سٹیٹ سبجیکٹ رول ختم ہونے کے باوجود اس کے خلاف محدود پیمانے پر احتجاج ہوا، اور جو لوگ اس جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر انسانی حقوق کی تنظیموں کے کردار پر بھی سوالیہ نشان اٹھتے ہیں۔ موجودہ حالات اور تاریخی حقائق کی روشنی میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزیوں کو روکنا گلگت بلتستان کے 25 لاکھ عوام کا قانونی حق ہے۔
    تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو خالصہ سرکار کی حکومتی اصطلاح "پانچویں صوبے” کے نعرے سے مماثلت رکھتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ڈوگروں سے آزادی کے بعد سے اب تک یہ خطہ آئینی اور قانونی طور پر کسی ملک کا حصہ نہیں، بلکہ قانونی طور پر ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے۔ جب تک مسئلہ کشمیر کا حل نہیں نکلتا، یہاں کی تمام زمینیں قانونی طور پر عوامی ملکیت ہیں، اور غیر ریاستی اداروں یا عناصر کو ان زمینوں کی الاٹمنٹ کا مقامی حکومت کو کوئی اختیار نہیں۔
    یہی موقف گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کا بھی ہے، جس نے کچھ عرصہ قبل اس حوالے سے ایک بل پاس کرانے کی کوشش کی تھی، لیکن حکمران جماعت نے اسے غداری قرار دے کر مسترد کردیا۔ لہٰذا اسلام آباد کو چاہیے کہ وہ گلگت بلتستان کے حوالے سے ہندوستان، امریکہ اور چین کے عزائم کو سمجھے۔ 5 اگست 2019ء کے بعد ہندوستان کے لداخ وزارت میں چلاس تک کے علاقوں کو شامل کرکے پولیٹیکل میپ جاری کرنا ان عزائم کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔
    گلگت بلتستان کے عوام کو اقوام متحدہ میں پاکستانی وزرائے اعظم کی تقاریر کی روشنی میں حقوق دیے جائیں۔ اس خطے کی قانونی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کیا جائے۔ خاص طور پر سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزیوں اور خالصہ سرکار زمینوں کی غلط تشریح کے ذریعے عوامی ملکیت کی اراضی پر قبضوں کو روکا جائے۔ موجودہ حالات میں نئی نسل کے اندر بڑھتی مایوسی اور احساس محرومی خطرناک صورتحال اختیار کر رہی ہے، جو مستقبل میں معاملات کو مزید پیچیدہ کر سکتی ہے۔

    Share. Facebook Twitter Email
    Previous Articleدریائے ہنزہ میں پانی کی سطح بلند، شاہراہ قراقرم کا حصہ بہہ جانے سے پاکستان اور چین کا زمینی راستہ منقطع
    Idrees
    • Website

    Related Posts

    دریائے ہنزہ میں پانی کی سطح بلند، شاہراہ قراقرم کا حصہ بہہ جانے سے پاکستان اور چین کا زمینی راستہ منقطع

    اگست 8, 2025

    بنوں میں سیکیورٹی چیک پوسٹ پر کواڈ کاپٹر حملہ، ایک ایف سی اہلکار شہید، 3 زخمی

    اگست 8, 2025

    آئی جی خیبر پختونخوا ذوالفقار حمید کا دورہ ہری پور ، نئی پولیس لائنز کا افتتاح کردیا

    اگست 7, 2025
    Leave A Reply Cancel Reply

    تازہ ترین خبریں
    بلاگ

    گلگت بلتستان میں خالصہ سرکار زمینوں کی حکومتی اصطلاح اور تاریخی حقیقت

    اگست 8, 2025
    خاص خبریں

    دریائے ہنزہ میں پانی کی سطح بلند، شاہراہ قراقرم کا حصہ بہہ جانے سے پاکستان اور چین کا زمینی راستہ منقطع

    اگست 8, 2025
    خاص خبریں

    بنوں میں سیکیورٹی چیک پوسٹ پر کواڈ کاپٹر حملہ، ایک ایف سی اہلکار شہید، 3 زخمی

    اگست 8, 2025
    خاص خبریں

    آئی جی خیبر پختونخوا ذوالفقار حمید کا دورہ ہری پور ، نئی پولیس لائنز کا افتتاح کردیا

    اگست 7, 2025
    • Facebook
    • YouTube
    • Twitter
    • Instagram
    نمایاں خبریں
    اپریل 15, 2024

    پنجاب بائیک سکیم: آن لائن رجسٹریشن کیسے کریں؟ مرحلہ وار گائیڈ چیک کریں

    خاص خبریں

    پنجاب حکومت نے ریجن کے طلباء کو بلاسود ماہانہ اقساط پر موٹر سائیکلوں کی رجسٹریشن…

    شوبز

    جمیل نوشاہی کی فنی خدمات کے اعتراف میں ادارہ فروغ ھندکو کے زیراھتمام باوقار تقریب

    اگست 4, 2025
    خاص خبریں

    ہری پور: پولیس وین کو حادثہ، ایک اہلکار جاں بحق، چار زخمی

    اگست 7, 2025
    ایڈیٹر کا انتخاب
    خاص خبریں

    پنجاب بائیک سکیم: آن لائن رجسٹریشن کیسے کریں؟ مرحلہ وار گائیڈ چیک کریں

    اپریل 15, 2024
    خاص خبریں

    پنجاب میں 50,000 گھروں کے لیے مفت سولر پینل! کیا آپ درخواست دینے کے اہل ہیں؟ یہاں چیک کریں!

    اپریل 16, 2024
    پوٹھوہار

    اسلام آباد انتظامیہ نے ڈرائیونگ لائسنس کی فیس میں حیران کن اضافے کا اعلان کر دیا

    مئی 15, 2024
    مقبول خبریں
    بلاگ

    گلگت بلتستان میں خالصہ سرکار زمینوں کی حکومتی اصطلاح اور تاریخی حقیقت

    اگست 8, 2025
    خاص خبریں

    دریائے ہنزہ میں پانی کی سطح بلند، شاہراہ قراقرم کا حصہ بہہ جانے سے پاکستان اور چین کا زمینی راستہ منقطع

    اگست 8, 2025
    خاص خبریں

    بنوں میں سیکیورٹی چیک پوسٹ پر کواڈ کاپٹر حملہ، ایک ایف سی اہلکار شہید، 3 زخمی

    اگست 8, 2025

    نئے فالو اپ کے ساتھ

    ہمارے نیوز لیٹر کو سبسکرائب کریں۔

    .K2Times © 2025. All Rights Reserved

    Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.