تحریر: شیر علی انجم:
گلگت بلتستان میں "خالصہ سرکار” کی اصطلاح ایک پیچیدہ اور قومی اہمیت کا حامل مسئلہ ہے، مگر بدقسمتی سے اس اہم موضوع کی طرف اب تک کسی سیاسی، سماجی یا مذہبی تنظیم نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ ہمارے ہاں "خالصہ سرکار” سے مراد وہ اراضی ہے جو بنجر ہو یا قابل کاشت، زیر استعمال ہو یا خالی پڑی ہو، لیکن کسی فرد واحد کی ملکیت میں نہ ہو۔ یہ زمینیں قدیم بندوبستی کاغذات اور محکمہ مال کے ریکارڈ میں "خالصہ سرکار” کے نام سے درج ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطے میں ایسی زمینوں کو سرکاری ملکیت تصور کیا جاتا ہے، اور ضرورت پڑنے پر حکومت انہیں بغیر کسی معاوضے کے اپنی تحویل میں لے کر استعمال کرتی ہے۔
عوام کے ذہنوں میں شروع سے یہ بات راسخ کی گئی ہے کہ خالصہ سرکار سے مراد سرکاری زمین ہے، جس پر صرف حکومت کو ملکیت اور تصرف کا حق حاصل ہے۔ تاہم، گلگت بلتستان میں لفظ "سرکار” کی تشریح خود واضح نہیں، کیونکہ اس خطے کی قانونی حیثیت بھی غیر واضح ہے۔ نہ تو اسے پاکستان کے آئین کے تحت مکمل تحفظ حاصل ہے، اور نہ ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اسے سیاسی و معاشی حقوق دیے گئے ہیں۔ اس من گھڑت تشریح کی وجہ سے عوام کو اکثر اپنی زیر استعمال زمینوں سے بغیر معاوضے کے محروم ہونا پڑتا ہے۔
تقسیم ہند کے وقت گلگت بلتستان سابقہ ریاست جموں و کشمیر کا تیسرا بڑا صوبہ تھا، جسے "صوبہ گلگت لداخ” کہا جاتا تھا۔ آج بھی سرکاری دستاویزات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اسے اسی نام سے تسلیم کیا جاتا ہے، اور پاکستان و بھارت دونوں اس حقیقت کو مانتے ہیں۔ اس تناظر میں تاریخی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ڈوگروں سے قبل سکھ سلطنت برصغیر میں ایک اہم طاقت تھی، جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی قیادت میں 1799ء سے 1849ء تک قائم رہی۔ اس سلطنت نے لاہور پر قبضہ کیا اور پنجاب سمیت گرد و نواح کے علاقوں پر اپنی حکمرانی قائم کی۔
اس وقت ہندوستان میں کئی سکھ تنظیمیں "خالصہ سرکار” یا سکھ پنجابی بادشاہت کی بحالی کے لیے سیاسی جدوجہد کر رہی ہیں۔ یہ سلطنت امرتسر اور لاہور سے ابھری اور ایک وقت میں خیبر پاس سے تبت کے وسط تک اور مٹھی کوٹ سے کشمیر تک پھیلی ہوئی تھی۔ سکھوں کے گورنر جموں، گلاب سنگھ کے وزیر زورآور سنگھ نے لداخ کو مقامی راجاؤں کی ملی بھگت سے 1840ء میں فتح کیا۔ اسی سال انہوں نے سکردو پر بھی قبضہ کیا اور بلتستان کے عظیم بادشاہ راجہ احمد شاہ مقپون کو ان کے خاندان سمیت گرفتار کرکے کشمیر کے ترال میں قید کردیا۔ اس کے بعد سکھ فوج نے بلتی سپاہ کو شامل کرکے تبت پر حملہ کیا۔ ادھر سکھ فوج کے کرنل نتھو شاہ نے گلگت پر حملہ کرکے راجہ گوہر امان کو شکست دی اور 1848ء میں نو مل کے قریب جنگ میں ہلاک ہوگئے۔
تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ خالصہ سرکار کے دور میں اس کے چار صوبے تھے: لاہور، ملتان، پشاور اور کشمیر۔ زورآور سنگھ نے سرینگر کے حکمران کے ماتحت گلگت پر حملہ کیا تھا۔ 16 مارچ 1840ء کو معاہدہ امرتسر کے تحت انگریزوں نے گلگت، لداخ اور بلتستان کی وزارتیں جموں کے ڈوگرہ راجے کے حوالے کردیں۔ اس تبدیلی سے پریشان کرنل نتھو شاہ سرینگر پہنچے تاکہ اپنی تنخواہ اور مراعات کے بارے میں معلوم کریں۔ ڈوگروں نے انہیں گلگت کی عملداری جاری رکھنے کی اجازت دی۔ بالآخر 1860ء میں کرنل نرائن سنگھ نے گلگت پر مکمل قبضہ کرلیا۔ اس طرح سکھوں کے دور میں بلتستان کی زیادہ تر اراضی خالصہ سرکار کی ملکیت بن گئی، اور لینڈ ریفارمز کے ذریعے زمینوں کی قانونی حیثیت مرتب کی گئی۔ باقی بچی زمینوں کو "خالصہ سرکار” یعنی سکھ حکومت کی ملکیت قرار دیا گیا۔
سکھ دور سے ڈوگرہ دور تک کے تاریخی تناظر میں دیکھیں تو 26 اکتوبر 1947ء کو مہاراجہ کے ہندوستان سے الحاق کے اعلان کے بعد مقامی لوگوں کے حقوق کی پامالی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ ڈوگروں سے آزادی کے بعد بھی گلگت بلتستان کے باشندوں کو نہ تو پاکستان کی آئینی شہریت حاصل ہوئی اور نہ ہی وہ ریاست جموں و کشمیر کی قانونی شہریت برقرار رکھ سکے۔ اس کے باوجود جب وسائل کی بات آتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ خطہ پاکستان کا اثاثہ، ماتھے کا جھومر اور اس کی پہچان ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان آج بھی گلگت بلتستان کو جموں و کشمیر کا قانونی حصہ سمجھتا ہے۔ یہاں کے عوام کو ووٹ کا حق حاصل نہیں، اور نہ ہی ان کے نمائندوں کو قومی اسمبلی یا سینٹ تک رسائی دی گئی ہے۔
اگر عوام اپنے حقوق کا مطالبہ کریں تو ان پر غداری کے الزامات لگا کر خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ انقلاب گلگت کی ناکامی اور اقوام متحدہ کی 13 اگست 1948ء کی قرارداد کے باوجود پاکستان اور آزاد کشمیر کے حکمرانوں نے 28 اپریل 1949ء کے معاہدہ کراچی کے ذریعے اس خطے کو ایک طرح سے لیز پر لے لیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہاں کے عوام کے اجتماعی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں، اور خالصہ سرکار کی زمینوں کو بغیر معاوضے کے جب چاہے قبضے میں لیا جاتا ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گلگت بلتستان اپنے قدرتی وسائل، آبی ذخائر اور دفاعی اہمیت کی وجہ سے پاکستانی کہلاتا ہے، مگر یہاں قانون کی عملداری اسلام آباد کے مزاج پر منحصر ہے۔ 1927ء کا سٹیٹ سبجیکٹ رول ختم ہونے کے باوجود اس کے خلاف محدود پیمانے پر احتجاج ہوا، اور جو لوگ اس جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر انسانی حقوق کی تنظیموں کے کردار پر بھی سوالیہ نشان اٹھتے ہیں۔ موجودہ حالات اور تاریخی حقائق کی روشنی میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزیوں کو روکنا گلگت بلتستان کے 25 لاکھ عوام کا قانونی حق ہے۔
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو خالصہ سرکار کی حکومتی اصطلاح "پانچویں صوبے” کے نعرے سے مماثلت رکھتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ڈوگروں سے آزادی کے بعد سے اب تک یہ خطہ آئینی اور قانونی طور پر کسی ملک کا حصہ نہیں، بلکہ قانونی طور پر ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے۔ جب تک مسئلہ کشمیر کا حل نہیں نکلتا، یہاں کی تمام زمینیں قانونی طور پر عوامی ملکیت ہیں، اور غیر ریاستی اداروں یا عناصر کو ان زمینوں کی الاٹمنٹ کا مقامی حکومت کو کوئی اختیار نہیں۔
یہی موقف گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کا بھی ہے، جس نے کچھ عرصہ قبل اس حوالے سے ایک بل پاس کرانے کی کوشش کی تھی، لیکن حکمران جماعت نے اسے غداری قرار دے کر مسترد کردیا۔ لہٰذا اسلام آباد کو چاہیے کہ وہ گلگت بلتستان کے حوالے سے ہندوستان، امریکہ اور چین کے عزائم کو سمجھے۔ 5 اگست 2019ء کے بعد ہندوستان کے لداخ وزارت میں چلاس تک کے علاقوں کو شامل کرکے پولیٹیکل میپ جاری کرنا ان عزائم کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔
گلگت بلتستان کے عوام کو اقوام متحدہ میں پاکستانی وزرائے اعظم کی تقاریر کی روشنی میں حقوق دیے جائیں۔ اس خطے کی قانونی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کیا جائے۔ خاص طور پر سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزیوں اور خالصہ سرکار زمینوں کی غلط تشریح کے ذریعے عوامی ملکیت کی اراضی پر قبضوں کو روکا جائے۔ موجودہ حالات میں نئی نسل کے اندر بڑھتی مایوسی اور احساس محرومی خطرناک صورتحال اختیار کر رہی ہے، جو مستقبل میں معاملات کو مزید پیچیدہ کر سکتی ہے۔