خواجہ سرا، جن کی شناخت ایک غیر غیرروایتی جنس کی نمائندگی کرتی ہے۔ خواجہ سراؤں کے بارے میں اگر بات کی جائے تو یہ معاشرے کا ایک مظلوم طبقہ ہے۔ حکومت پاکستان نے 2018 میں ان کو قانونی حیثیت تو دی اور ان کے لیے "تیسری جنس” کے خانہ کو شناختی کارڈ پر شامل بھی کیا گیا۔
اگرچہ قانونی پہچان موجود ہے،مگر عملی طور پر خواجہ سراؤں کو ان کے حقوق اور تحفظ حاصل کرنے میں آج بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خواجہ سراؤں کو اکثر معاشرتی بدنامی، امتیاز اور جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو انہیں معاشرتی قبولیت حاصل کرنے میں مشکلات فراہم کرتا ہے۔ بہت سے خواجہ سراؤں کو اپنے خاندان کی طرف سے قبولیت کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور بعض اوقات وہ اپنے خاندان سے الگ ہو کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ خواجہ سراؤں کو کچھ مخصوص معاشرتی کردار ادا کرنے کے لئے جانا جاتا ہے، جیسے کہ شادیوں میں رقص کرنا بھیک مانگنا.
خواجہ سراؤں کو صحت کی مخصوص سہولتوں تک رسائی حاصل کرنے میں بڑی مشکلات پیش آتی ہیں مثلا انکی صحت کی ضروریات، جیسے کہ ہارمون تھراپی، کے لیے مناسب طبی خدمات کا فقدان ہے۔ اگر بات معاشی حالات کی جائے تو ان کے مسائل گھمبیر حد خراب ہیں۔
کوئی ہنر نہ ہونے کی وجہ سے یہ اپنا گزر بسر مجبورا شادی محفلوں میں ناچ گا کریا بھیک مانگ کرتے ہے۔ اگر بات رہائش کی کریں تو پہلے انھیں رہائش کے لیے کوئی گھر نہیں دیتا اگر دے بھی دے تو انکے لیے بہت ساری مشکلات کھڑی کی جاتی ہیں۔ قرب و جوار کے لوگ انھیں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے، اس معاشرتی امتیاز اور امتیازی سلوک کی وجہ سے ان میں ذہنی صحت کے مسائل عام ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مزید مضبوط قانونی اقدامات اور پالیسیاں خواجہ سراؤں کے حقوق کی حفاظت کے لئے کئے جائے۔ معاشرتی آگاہی تعلیم اور ہنر کے ذریعے خواجہ سراؤں کے خلاف امتیازکو بھی کم کیا جا سکتا ہے اور انہیں معاشرے میں بہتر مقام حاصل کرنے میں مدد بھی فراہم کی جا سکتی ہے۔ خواجہ سراؤں کے مسائل کو حل کرنے اور ان کے حقوق کی حفاظت کے لیے معاشرتی، قانونی، اور حکومتی سطح پر مسلسل کوششوں کی ضرورت ہے۔
اب بات کرتے ہیں ضلع ہریپور کی تینوں تحصیل کے غازی، خانپور اور سٹی میں لگ بھگ چار پانچ سو کے قریب خواجہ سرا کمیونٹی موجود ہیں۔ہریپور میں جب خواجہ سرا سے بات کی گیئ تو تو انہوں نے درج ذیل مسائل بیان کئے ہیں۔
چاند خواجہ سرا کے مطابق ضلع ہریپور میں تقریباً چار پانچ سو خواجہ سرا ہیں، آج کل مصنوعی خواجہ سراؤں نے ڈھنگ بنایا ہوا ہے وہ ننگی ویڈیوز وائرل کرتے ہیں یعنی آدھے کپڑے اتار کر ایکشن لئے جاتے ہیں جن کی وجہ سے ہم خواجہ سرا بدنام ہوتے ہیں۔ انتظامیہ سے ہماری گزارش ہے کہ ان کے خلاف سخت سے سخت قانونی کارروائی کی جائے تاکہ وہ دوبارہ اسی طرح حرکتیں نہ کریں۔ جو ایسی حرکتیں کر تے ہیں وہ صرف دن دگنی شہرت حاصل کرنے کے لئے یہ سب کرتے ہیں اور بدنام ہم سارے ہوتے ہیں۔
ضلع ہریپور ہزارہ میں خواجہ سراؤں کو شادی بیاہ اور ہر خوشی کے موقع پر بلایا جاتا ہے تو ہم ان کی خوشیوں میں شامل ہو کر خود بھی خوش ہوتے ہیں اور دنیا بھی خوش ہوتی ہے۔ حکومت کی طرف سے جو بھی خواجہ سراؤں کے دعوے ہیں کہ حکومت نے یہ کیا فلاں کیا تو ہمیں آج تک کوئی سہولت یا مدد نہیں ملتی ہم تو رات کو فنگشن میں جا کر کچھ کمائیں گے تو صبح آ کر کھائیں گے۔ اگر حکومت ہماری کوئی بھی مدد کرے یا ہمیں نوکریاں دے تو ہم یہ کام چھوڑ کر اپنی نارمل زندگی گزاریں گے، ہمارے بھی رشتے دار بہن بھائی ہیں۔
آج کل رینٹ زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ بجلی کے بل بھی بہت زیادہ آ رہے ہیں اور مہنگائی بھی اتنی حد سے زیادہ ہوئی ہے۔ ہمیں یہاں پر کرایہ پر مکان لینے میں بھی بڑی مشکل ہوتی ہے۔ محلے والے اور قانون والے آ کر ہمیں ہی تنگ کرتے ہیں، پولیس والے صرف ہمارے پاس ہی آ کر ہمیں تنگ کرتے ہیں اور ویڈیوز بنا کر وائرل کرتے ہیں۔ اور جو لوگ مصنوعی خواجہ سرا بن کر آئے ہے فحاش قسم کی وڈیوز بناتے ہیں اور سارا ماحول خراب انہوں نے کیا ہے۔
پولیس ان کی طرف نہیں جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم لوگ باہر نہیں جا سکتے کیونکہ نیٹ کی وجہ سے ہر چیز دیکھی جا سکتی ہے کسی میں اتفاق ہی نہیں ہے۔ جس نے کرایا پر ایک کمرہ لیا ہے اس نے بھی اپنا گروپ بنایا ہے یہاں پر کوئی اتفاق ہی نہیں ہے کہ کوئی کسی کا ساتھ دے۔ ہریپور کے خواجہ سراؤں کے ساتھ گھر والے رابطے کرتے ہیں کیونکہ آج کل سب پیسہ دیکھتے ہے اور پیسے کو کوئی برا نہیں بولتا ہے۔ گھر والوں کو پیسے دے تو وہ بھی ساتھ دیتے ہیں کچھ نہیں کہتے ہیں۔
حکومت سے ہماری گزارش ہے کہ ہمیں اچھی نوکری دے تاکہ ہم بھی عزت سے روٹی کمائیں۔
پولیس کا رویہ آج کل ٹھیک ہے ۔ اگر پیسے لگائے تو پولیس کا رویہ ٹھیک ہوتا ہے،کیونکہ ہر جگہ پیسہ چلتا ہے۔ پیسے کے علاؤہ بہن بھائی نہیں ہے تو ادارے پھر دور کی بات ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے جو اعلانات ہوتے ہیں وہ سب کچھ ہمیں ملنا چاہیے جیسے ایک عام شہری کو ان کے حقوق ملتے ہیں تو ہمیں بھی ہمارے حقوق ملنے چاہے تاکہ ہم بھی اپنی زندگی آرام سے گزاریں۔