پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد ویسے تو 1960 کی دہائی میں باقاعدہ منصوبہ بند شہر کے تحت تعمیرکیا گیا لیکن اس علاقے کی تاریخ ہزاروں برس پر محیط اور بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس شہر کا قدیمی نام راج شاہی تھا۔
وفاقی دارالحکومت بننے سے قبل اس خطے میں پوٹھوہار کے سطح مرتفع پر متعدد قدیم دیہات آباد تھے۔ ان دیہاتوں کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے، جو آریائی، سوانی، اور وادی سندھ کی تہذیبوں سے منسلک ہیں۔
تاریخی پس منظر
وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) نے بہت سے دیہات کی زمینیں حاصل کیں اور مکینوں کو ملتان، جھنگ، اور سرگودھا میں متبادل الاٹمنٹس دیں، لیکن کچھ دیہات اب بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ ان دیہاتوں میں ہندو، بدھ، اور اسلامی تہذیبوں کے آثار اب بھی اپنی اصل شکل میں موجود ہیں جس میں بدھ اسٹوپا، ہندو مندر، اور مغلیہ مساجد قابل ذکر ہیں۔ اسلام آباد کی تعمیر سے قبل اس خطے میں تقریباً 160 دیہات آباد تھے، جن میں سے 85 دیہات شہر کی تعمیر سے متاثر ہوئے۔
ترقیاتی کاموں کے باوجود بچ جانے والے پرانے راج شاہی کے چند گاؤں:
1. سید پور گاؤں
سید پور اسلام آباد کا سب سے مشہور اور قدیم گاؤں ہے، جس کی تاریخ 16ویں صدی سے ملتی ہے۔ یہ گاؤں ہندوؤں کے لیے مقدس مقام تھا اور کہا جاتا ہے کہ مغل کمانڈر راجہ مان سنگھ نے اسے ہندو عبادت گاہ میں تبدیل کیا تھا۔ یہاں رام کنڈا، سیتا کنڈا، اور لکشمن کنڈا جیسے تالاب موجود ہیں۔ 2006 میں اسے بحال کرکے ماڈل ویلج کا درجہ دیا گیا۔ مندر، گردوارہ، اور دھرم شالا کو بھی مرمت کیا گیا ہے۔ یہ گاؤں کمہاروں کی بستی کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔ سید پور کے تاریخی نقوش مختلف تہذیبوں کی عکاسی کرتے ہیں، اور اب یہ سیاحوں کے لیے ایک آرٹس اینڈ ہیرٹیج مقام ہے۔
2. شاہ اللہ دتہ
شاہ اللہ دتہ 650 سال پرانا گاؤں اور مغل دور سے وابستہ ہے۔ اس کا نام ایک درویش شاہ اللہ دتہ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ یہاں 2500 سال پرانی بدھ مت کے پیروکاروں کی غاریں موجود ہیں، جو ٹیکسلا کے مغرب میں واقع ہیں۔ غاروں کے قریب ایک چشمہ، تالاب، اور باغ ہے۔ مغلیہ دور میں یہ تصوف کا مرکز تھا۔ کنتھیلا گاؤں میں شیر شاہ سوری کی بنائی ایک قدیم باولی بھی موجود ہے۔
3. سملی گاؤں
سملی گاؤں کا ذکر ایک قدیم لوک داستان سے منسلک ہے جو شہزادی سملی دیوی سے وابستہ ہے۔ یہ گاؤں دریائے سواں کے کنارے آباد تھا، جسے قدیم زمانے میں دریائے شوشماں کہا جاتا تھا۔ 1968 میں سملی ڈیم کی تعمیر کے لیے اس گاؤں کے سو کے قریب گھروں کو خالی کرا کے مکینوں کو متبادل جگہ پر منتقل کیا گیا۔ اب اس کا نام و نشان باقی نہیں ہے۔
4. نور پور شاہاں
یہ گاؤں حضرت شاہ عبدالطیف کی آمد سے قبل چور پور کے نام سے مشہور تھا۔ مارگلہ کے دامن میں واقع یہ گاؤں اسلام آباد کے دیہی علاقوں میں شامل ہے۔ اس کی اصل شکل کو برقرار رکھا گیا ہے، اور یہ ثقافتی ورثے کا حصہ ہے۔
5. گولڑہ شریف
یہ گاؤں پیر مہر علی شاہ کے مزار کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کی تاریخی اہمیت مغل دور سے منسلک ہے۔ گولڑہ شریف آج بھی ایک روحانی اور ثقافتی مرکز ہے، اور اسے اسلام آباد کے دیہی علاقوں میں شامل کیا گیا ہے۔
6. ملپور
تاریخی اہمیت: یہ گاؤں راول ڈیم کی حدود میں تھا اور قدیم بستیوں میں سے ایک تھا۔ ڈیم کی تعمیر کے بعد اسے نیو ملپور کے نام سے دوبارہ بسایا گیا۔
7. کُری
یہ گاؤں کوری دیوی کے نام سے منسوب ہے، جو سملی دیوی کی نانی تھیں۔ یہ ہندو داستانوں سے منسلک ہے۔ یہ گاؤں آج بھی موجود ہے اور اس کی تاریخی اہمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
موجودہ صورتحال
سی ڈی اے اور وفاقی محکمہ آثار قدیمہ نے 2010 میں 450 کے قریب تاریخی مقامات کی نشاندہی کی، جن میں سے 150 کو تحفظ دینے کے لیے اقدامات کیےگئے ہیں۔ تعمیر کے دوران بہت سے دیہات کے نام و نشان مٹ گئے۔ تاہم کچھ دیہات جیسے سید پور، شاہ اللہ دتہ، اور گولڑہ شریف کو ان کی تاریخی اہمیت کی وجہ سے محفوظ رکھا گیا ہے۔