(مدثر حسین) ایک ایسے دور میں جب دنیا انسانی ذہانت سے مصنوعی ذہانت پر منتقل ہو رہی ہیں، آرٹیفیشل انٹیلجنس پر مبنی نت نئے ایپلیکشنز لانچ ہو رہی ہیں۔
چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک سے زندگی آسان اور معمولات حیات میں انسانی عقل کا عمل دخل کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے، ایسے میں ہم پاکستانیوں نے جیسے قسم کھائی ہوں کہ ہم نے اپنا دماغ کو تالہ لگا کر کامن سینس بھی استعمال نہیں کرنا ہیں۔ نہیں تو اپ کسی پبلک واش روم جا کر دیکھ لیں، گندگی اور غلاظت سے دماغ سن نہ ہوں تو میں مجرم،سرکاری یا پرائیوٹ ہسپتال،دفتر وغیرہ جائیں لوگ قطار اور انتظار کو توہین سمجھتے ہیں ، یہاں تک کہ ائیرپورٹ میں جہاز پر سوار ہوتے وقت بھی ایسی دھکم پیل ہوتی ھے جیسے یہ بڈبھیر جانے والی آخری بس ہوں۔ سڑکوں پر ٹریفک قوانین کی پاسداری کرنے والے اب معدومی کے شکار ہو رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں سرقہ ازم اس حد تک سرائیت کرچکا ھے کہ خود وائس چانسلرز تک جعلی ڈگری ہولڈر پائے گئے ہیں۔ بازاروں میں ملاوٹ، جعلی اور دو نمبر اشیاء جس مہارت اور چرب زبانی کیساتھ فروخت ہوتی ہیں لگتا نہیں کہ ہم مسلمانوں کے ملک میں ھے۔ یہ سب کامن سینس کے عنقاء ہونے کی موٹی موٹی نشانیاں ہیں۔
بابائے قوم اور آزادی سے پہلے کی مسلمان قیادت کو اگر پتہ ہوتا کہ آگے چل کر آزاد ملک پاکستان کا یہ حال ہوگا تو شائد وہ کبھی تقسیم ہندوستان کا مطالبہ نہیں کرتے۔ عشروں سے پاکستانی قوم ہجوم بے مہار کی طرح زندگی جی رہی ہیں۔
نہ کوئی قومی نصب العین، نہ منصوبہ بندی نہ ہی مستقبل کی سوچ، بس ایک ایڈہاک ازم ھے جو ہر جگہ اس بوسیدہ نظام کو چلائے جا رہا ہیں۔ سیاستدان الیکشن تک سوچتے ہیں تو حکمران مدت پوری کرنے تک، اداروں کے سربراہان ایکسٹینشن کو مقصد بنائے ہوئے ہیں تو دینی طبقہ ہر معاملے کو مذہبی ٹچ دینے پر تلا ہوا ھے۔ جو رہی سہی کسر تھی وہ اعلیٰ عدلیہ میں جاری گروپ بندی اور محاز آرائی نے پوری کردی۔ اڑوس پڑوس والے ممالک اب ہمیں ناقابل اصلاح سمجھ کر آگے جا رہے ہیں۔مشرقی ہمسایہ اپنا شمار اور موازنہ اب یورپ کیساتھ کر رہا ھے، اور ہم ھیں کہ خطے میں افغانستان سے بھی خراب حالات تک پہنچانے کا تہیہ کر بیٹھے ہیں۔ مین سٹریم اور سوشل میڈیا دونوں جگہوں پر موضوع گفتگو ہماری غربت، بے روزگاری، موسمیاتی تبدیلی، تعلیمی پسماندگی، جمہوری اقدار، گڈ گورننس اور دیر پا ترقی کے اہداف ہونے چاہیے لیکن یہاں تو بالکل گٹر جیسی صورتحال ہیں۔ نیشنل میڈیا پر "تو چور” ,”تو کرپٹ” کی گونج سے بات اب باقاعدہ مار پیٹ تک چلی گئ ھے، شیر افضل بمقابلہ افنان خان اور پنجوتہ بنقابلہ اختیار ولی ٹی وی پر اس نئے طرز گفتگو کے معماران ہیں۔ شائد لیڈرز نے بھی اس تشدد کو قبول کر لیا ھے تبھی تو ایسے واقعات پر مذمت اور شوکاز نوٹس کی بجائے ان پر خاموش رہ کر چسکے لیے جاتے ہیں۔ اور لیڈر اس کج روئی کو کیکیوں نہ پسند کریں۔ ان سے پوچھ تاچھ اور جوابدہی کرنیوالے نوجوان اپنی الگ دنیا میں مست ہیں۔ یہ جنریشن انٹرنیٹ کو ضرورت سے زیادہ مسرت کے لیے استمال کرتی ہیں۔ قوم سارا دن reels دیکھ کر اس پر تبصرے کرتی ہیں یا پھر مزاحیہ میمز بنا کر طنز و مزاح کے زریعے Dopamine نامی کمیکل ریلیز کرتی ہیں۔ ایسا لگتا ھے جیسے ہم انسانوں کی وہ آخری نسل ھے جن کے بعد زمین پر زندگی ختم ہو جائیگی، اسی لیے حکمران اور عوام دونوں کو 25 کروڑ ابادی والے اس ملک کی نہ کوئی فکر ،نہ سوچ، بس جو جیسا چل رہا ھے ، ایسا چلنے دیں کی پالیسی ہیں۔ تبھی تو کہا جاتا ہیں کہ پاکستان میں کامن سینس کا جتنا فقدان ھے اسے دیکھ کر حکومت یا مخلص اداروں کو فورا آرٹیفشل انٹیلجنس کا کوئی ایسا سافٹ وئیر درامد کرنا چاہیے جو عوام میں انسٹال کر کے اس ہجوم کو قوم بنایا جاسکے۔