گلگت بلتستان آرڈر 2009 اور گلگت بلتستان آرڈر 2018 کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ گلگت بلتستان آرڈر 2009 کے نتیجے میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کا قیام اور انصاف کی فراہمی کے لئے سپریم ایپلیٹ کورٹ نے گلگت بلتستان کا قیام عمل میں لایا گیا.
س آرڈر کے تحت گلگت بلتستان کونسل کا چیئرمین وزیر اعظم پاکستان جبکہ وزیراعظم کے علاوہ چھ پاکستانی وزراء بھی کونسل کے ممبران تھے جن کی تقرری کا اختیار وزیر اعظم کے پاس ہے۔ آرڑر 2009 کے تحت گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ حاصل نہیں تھا. چونکہ آئین پاکستان کے تحت پاکستان کے صرف چار صوبے ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام کو پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی نہیں تھی اور آج بھی گلگت بلتستان کے شہریوں کو پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں ہے, نہ ہی وفاقی حکومت کے چناؤ اور پالیسی سازی میں شرکت کا حق حاصل ہے۔
یہی وہ بنیادی وجہ تھی کہ گلگت بلتستان کے قوم پرست رہنما نواز خان ناجی نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے سامنےگلگت بلتستان آرڈر 2018 کو پھاڑ کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے اور گلگت بلتستان کی عوام نے یکجا ہوکر “آرڑر پر ارڑر نامنظور “کا نعرہ لگا کر ارڑر 2018کو مسترد کر دیا.