آزاد کشمیر بھر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر نظام زندگی ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ پتھراؤ اور جھڑپوں کے نتیجے میں 11 پولیس اہلکاروں سمیت 40 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔
وادی میں دوسرے روز بھی ٹریفک جام کے باعث مظفرآباد نیلم، لیپا اور راولاکوٹ میں تجارتی مراکز بند اور سیاحوں کی بڑی تعداد پھنس گئی۔ امتحانات منسوخ، میڈیکل سٹور، ہوٹل، سبزی، پھل اور بیکری کی دکانیں بند کر دی گئیں۔
عوامی ایکشن کمیٹی نے 11 مئی کو مکمل شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی کال دی ہے، حکومت آزاد کشمیر نے تمام اضلاع میں عوامی اجتماعات، ریلیوں اور جلوسوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔ آزاد کشمیر تعلیمی بورڈ اور پبلک سروس کمیشن کے امتحانات منسوخ کر دیے گئے ہیں۔
حکومت آزاد کشمیر نے بھی احتجاج روکنے کے لیے ایف سی اور پی سی کی بھاری نفری طلب کر لی ہے۔ وزیر داخلہ کرنل (ریٹائرڈ) وقار احمد نور نے کہا کہ عوام کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے اور حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔
ایک سرکاری افسر کو آج چار گھنٹے تک یرغمال بنایا گیا اور دیڈیال میں ایک سرکاری گاڑی کو جلا دیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہاں صرف امن و امان برقرار رکھنے کے لیے محدود کارروائی کی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ایک اسکول کی لڑکی کی موت ہوئی ہے لیکن ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ تقریباً 70 افراد کو گرفتار کیا گیا جنہوں نے امن عامہ کو بگاڑنے کی کوشش کی تھی اور جن لوگوں نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ کسی گڑبڑ کا حصہ نہیں بنیں گے انہیں رہا کر دیا گیا۔